بولو مت، چپ رہو
حدیبیہ افتخار
سیانے کہتے ہیں خاموشی بہترین گفتگو ہے، نو ڈاؤٹ۔۔۔ مگر ایسا بھی نہیں کہ اسے اپنی عادت ہی بنالیا جائے, اور ایسا بھی نہیں ہے کی یہ فارمولا صرف لڑکیوں پر اپلائی کیا جائے۔
یقیناً ایسی کچھ جگہیں ہیں جہاں خاموش رہنے میں ہی بھلائی ہوتی ہے لیکن اگر آپ ہر بات پر جواب دینے کی بجائے مسلسل چپ رہنے کو ترجیح دیں گے تو پھر یہ آپ کے لئے مسائل بھی کھڑے کرسکتا ہے آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ یہ نہ صرف آپکو بلکہ آپ سے جڑے کئی لوگوں کے لئے مستقبل میں پریشانیوں کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
آرام سے بولو کوئی سن لے گا
چپ کرو، آہستہ بولو، بھائی کے سامنے اونچی آواز میں بات مت کرو۔
اپنی عمر سے بڑی باتیں مت کرو۔ صبر سے کام لو۔ خاموش رہو۔ ہونٹ سی کر زندگی گزارو
بڑوں کے سامنے ایسی بات نہیں کرتے۔ یہ وہ جملے ہیں جو ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کے لئے سننا عام سی بات ہے۔
کچھ لڑکیاں ایسی باتوں پر سختی سے عمل پیرا ہوکر اپنی زندگیاں داؤ پر لگا بیٹھتی ہے اور اگر کوئی لڑکی روگردانی کرتی ہے اور ان باتوں کو پس پشت ڈال کر اپنی مرضی کے مطابق جينے کی ٹھان لیتی ہے تو پھر معاشرے میں ان کو "بدتمیز” ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔
بات کروگے تو بات بنے گی
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر آپ زندگی میں کسی بھی قسم کی پریشانی کا سامنا کر رہے ہیں تو اس کا حل تب ہی نکلتا ہے جب آپ اس پر بات کرتے ہیں۔ اگر آپ خاموش رہے گے تو آپ میں شعور کیسے پیدا ہوگا؟ آپ اچھے برے کی تمیز بھلا کیسے کر پائیں گے۔۔
انسان کی الجھنوں کا حل اسے الفاظ کے ذریعے ہی ملتا ہے، یاد رہے، جب تک آپ بولیڼ ګي نہیں تب تک نہ ہی آپ غلط فہمیوں اور خدشات کو دور کر سکتے ہیں اور نہ معاشرے کے خود ساختہ غلط عقائد اور رسومات کو رد کر سکتی ہیں۔
خاموشی صرف لڑکیوں کے لئے ہی کیوں
ہمارے معاشرے میں اکثر خواتین کو اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرنے کا اختیار نہیں دیاجاتا (شائد کچھ گھرانوں میں اختیار ہو بھی لیکن بہت کم ) لڑکی تعلیم حاصل کرے گی یا نہیں اور اگر کرے گی تو کس جماعت تک پڑھے گی۔ کالج جائے گی یا نہیں یونیورسٹی میں تعلیم کی اجازت ہوگی یا نہیں۔ یہ سب فیصلے گھر کے مردوں پر ڈیپنڈ کرتا ہے خواہ اس کا بھائی اس سے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو, مگر ہے تو مرد ہی اسلئے چھوٹے بھائی کا مشورہ بھی درکار ہوتا ہے۔
واضح رہے بلاگ کا مقصد کسی پر تنقید کرنا نہیں ہے لیکن یہ سب ہمارے معاشرے میں کسی نہ کسی طور پر موجود ہے۔
تعلیم کے بعد عورت کے رشتے کی بات آتی ہے تو گھر کے ہر فرد کو معلوم ہوتا ہے کہ رشتہ کس سے ہونا ہے نہیں معلوم تو اس لڑکی کو جس کی رشتے کی بات پکی ہورہی ہے۔ جب لڑکی کو پتہ چل جاتا ہے کہ اس کی رشتے کی بات ہورہی ہے اگر ان کو رشتہ پسند نہ بھی ہو تو گھر کی دوسرے عورتیں انھیں تلقین کرتی ہے کہ چپ رہے کچھ بولیں مت لوگ کیا کہے گے اور تو اور نکاح کے وقت بھی لڑکی کچھ دیر خاموش رہ لے تو اسے "ہاں” تصور کیا جاتا ہے۔
اپنے لئے بولنا سیکھیے
اگر آپ کے لئے آپ کے بڑے کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو ضروری نہیں کہ وہ اپکے لئے بہتر نہ ہوں، میں نے ایسے بہت سے کامیاب مستقبل بھی دیکھے ہیں جن کے فیصلے خاندان کے بڑوں کے ہاتھوں قرار پائے ہیں۔ مسلہ تب ہوتا ہے جب آپ کے بڑے ایسا فیصلہ کررہے ہوتے ہیں اور آپ کو پتہ ہوں کہ وہ آپ کے لئے ٹھیک نہیں ہے اور آپ اس پر بھی خاموشی اختیار کرتے ہیں۔
اگر کوئی بھی لڑکا یا لڑکی با شعور ہے تو ہمارا دین اور پاکستان کا آئین ان کو اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرنے کا اختیار دیتا ہے بالغ لڑکا ہو یا لڑکی ان کو اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرنے کا اچتیار حاصل ہوتا ہے۔
خاموشی کن مسائل کو جنم دیتی ہے
جیسا کہ اس بلاگ کے آغاز میں نے بتایا کہ خاموش رہنا کوئی بری بات نہیں، مگر جب آپ کے جائز حق پر کوئی ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور وہاں پر بھی آپ اپنے حق کے لئے آواز نہیں اٹھاتے اور چپ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں تو وہاں کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔ جس میں خواتین پر جنسی تشدد، گھریلو مسائل، کم عمری میں شادی وغیرہ جیسے مسائل شامل ہیں.
خواتین کی جنسی تشدد میں اضافہ، اور ان کی خاموشی
اس بلاگ پر ریسرچ کرتے وقت مجھے پتہ چلا کہ جولائی 2021 سے دسمبر 2022 تک خواتین پر جنسی تشدد کیسز کی تعداد میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں جو تعداد بتائی گئی ہے اصل میں اس سے زائد ہوگی کیونکہ زیادہ تر کیسز تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے اس ڈر سے کہ معاشرے میں مزید بدنامی ہوگی لوگ ایسے کیسز کو چھپالیتے ہیں اور رپورٹ ہی نہیں کرتے۔
یہ خواتین کی خاموشی ہی ہے جو اس قدر گھمبیر مسئلے کو بڑھا دیتی ہے۔ اس طرح کے مسائل عورت کی ایک لفظ کی مار ہے بشرطیکہ اس لفظ کو منہ سے نکالا جائے۔
حدیبیہ افتخار ایک فیچر رائیٹر اور بلاگر ہیں۔