نوجوان سیاسی جماعتوں کی ترجیح کیوں نہیں؟
محمد فہیم
عام انتخابات کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔ وفاقی حکومت اگست کے پہلے عشرے میں اپنی مدت سے قبل تحلیل کرنے پر غور کیا جارہا ہے جس کے بعد ایوان میں بیٹھی سیاسی جماعتوں کے پاس انتخابی مہم چلانے کا وقت میسر آجائے گا۔ اگر نظر دوڑائی جائے تو پاکستان میں ہر بار انتخابی مہم انتخابی منشور سے مختلف چلائی گئی ہے اور ہر بار ایک نیا نعرہ عوام کو دیا گیا۔
2008 میں اس وقت کے آمر جنرل پرویز مشرف کیخلاف مہم چلائی گئی اور سیاسی جماعتوں نے اس نام پر ووٹ لیا۔ 2013 میں توانائی کا سنگین بحران اور امن و امان کا مسئلہ درپیش تھا سیاسی جماعتوں کو اس نام پر ووٹ دئے گئے جبکہ 2018 میں کرپشن مخالف بیانیہ مقبول ہوا جس پر لوگوں نے ووٹ دیا۔ اس بار 2023 کے انتخابات کا نعرہ معاشی استحکام نظر آرہا ہے جس پر تمام سیاسی جماعتیں ووٹ مانگتی ہوئی نظر آئیں گی لیکن کوئی بھی سیاسی جماعت سنجیدہ طور پر ان تمام مسائل کو حل کرنیوالی ہماری نوجوان نسل پر توجہ نہیں دے رہیں۔
نوجوانوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والے شفیق گگیانی کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ نوجوان ووٹرز کا تناسب پاکستان میں ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں بھی بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔ دنیا بھر میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ نوجوان جس ملک میں زیادہ ہوں گے وہ زیادہ ترقی کریگا لیکن پاکستان میں یہاں کے نوجوان یوتھ بم بنتے جا رہے ہیں۔کوئی بھی نوجوانوں کے مسائل حل کرنے کی جانب نہیں بڑھ رہا۔ پاکستان کی لیڈرشپ یہ منصوبہ بندی کررہی ہے کہ کیسے اپنے نوجوانوں کو ملک سے باہر بھیجے جو انتہائی خطرناک ہے۔
شفیق گگیانی کہتے ہیں کہ نوجوانوں کو اپنے ملک میں تکنیکی صلاحتیں فراہم کرنا اور انہیں معاشی طور پر مضبوط بنانا کسی بھی سیاسی جماعتوں کی ترجیح نہیں ہے۔ انتخابی منشور تو انتہائی خوبصورتی سے بنایا جاتا ہے لیکن جب عمل کی بات آتی ہے تو اس میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ سیاسی جماعتوں کی توجہ نوجوان ہونا انتہائی ضروری ہے سیاسی فیصلہ سازی میں ہمیں نوجوان نظر میں نہیں آتی۔ سٹوڈنٹس یونین پر پابندی عائد کی گئی ہے جس کے باعث فیڈریشن بنا دی گئی لیکن اسے قومی دھارے میں نہیں لایا گیا جو بڑا نقصان ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے رجسٹرڈ ووٹرز کے حوالے سے جاری اعدادو شمار کے مطابق ملک بھر میں تقریبا 12کروڑ ووٹرز ہیں جن میں 6کروڑ سے زائد مرد جبکہ 5کروڑ سے زائد خواتین ہیں۔ 18 سے 25 سال کی عمر کے ووٹرز کی تعداد تقریباً 2کروڑ تین لاکھ جبکہ 26 سے 35 سال کے ووٹرز کی تعداد 3 کروڑ 2لاکھ سے زائد اور 36 سے 45 سال کی عمر کی حد میں 2کروڑ7لاکھ سے زائد ہے۔ ان ووٹرز میں نوجوانوں کی بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی ذی شعور انسان یہی منصوبہ بندی کریگا کہ وہ نوجوانوں کا ووٹ حاصل کرے لیکن یہاں گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے اب تک صرف عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے طلباءو طالبات کیلئے تعلیمی پلان سامنے لایا گیا ہے اس پلان پر عمل کیسے ہوگا اور طریقہ کار کیا ہوگا جبکہ اس کے علاوہ دیگر نوجوانوں کیلئے کیا پلان ہے ؟ اس حوالے سے عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے مکمل خاموشی ہے۔
نوجوان سماجی کارکن نائلہ الطاف کہتی ہیں کہ نوجوانوں سے متعلق سیاسی جماعتوں کا رویہ انتہائی غیر سنجیدہ ہے۔ سیاسی جماعتوں نے یوتھ کا لفظ صرف لڑکوں تک محدود کردیا ہے لڑکیاں بھی برابری کی بنیاد پر حقوق رکھتی ہیں۔ خواتین اور بالخصوص قبائلی خواتین ہمیشہ سے محروم رہی ہیں ہماری خواتین نے صرف ڈاکٹر یا استاد ہی بننا ہے اگر اس کے علاوہ کوئی خاتون اپنا کیریئر بنانا چاہتی ہے تو اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی خاتون اکیلے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی۔ سیاسی جماعتیں لڑکیوں کو ٹکٹ جاری کرنے سے بھی کتراتی ہیں چند واقعات ایسے بھی آئے ہیں کہ پارٹی ٹکٹ دینے کیلئے خواتین کو ہراساں بھی کیا گیا۔
نائلہ الطاف کہتی ہیں کہ سیاسی شعور کے ساتھ سیاسی فیصلہ سازی میں بھی نوجوانوں اور خواتین نوجوانوں کو شامل کرنا ہوگا۔ ایسی کئی خواتین ہیں جن میں قیادت کی اہلیت ہے لیکن موقع کوئی دینے کو تیار نہیں ہے۔ نائلہ الطاف کہتی ہیں کہ امید چھوڑنا نہیں چاہئے لیکن سیاسی جماعتیں ماضی کے طریقہ کار کے تحت ہی مہم چلا رہی ہیں اور وہ نوجوانوں کے مسائل سے آنکھیں چرا رہی ہیں۔