گردوں کی بیماری میں مبتلا بیوی کو بچانے کے لیے شوہر آخری تک جانے کو تیار
ناہید جہانگیر
پشاور: ورسک روڈ شاہی بالا کے رہائشی 42 سالہ محمد انور کی بیوی عنبرین کو جب چند ماہ قبل درد کی شکایت ہوئی تو وہ بیوی کو ڈاکٹر کے پاس لئے گئے جہاں معائنہ کے وقت پتہ چلا کہ عنبرین کے دونوں گردے فیل ہوچکے ہیں اور انہیں زندہ رہنے کے لیے نئے گردے لگانے کی ضرورت ہے۔
تین بچوں کی ماں عنبرین کو نیفرولوجسٹ نے جلد از جلد ڈائیلاسسز کا مشورہ بھی دیا تھا تاہم محمد انور کی خواہش تھی کہ وہ اپنی خالہ زاد بیوی کو بچانے کے لیے اپنا ایک گردہ عطیہ کریں گے جس کے لیے انہوں تمام ضروری ٹیسٹ کئے اور نتیجہ آنے کے بعد ان کا گردہ عنبرین کے ساتھ میچ ہو گیا۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے محمد انور نے بتایا کہ جب گھر والوں کو معلوم ہوا کہ وہ اپنی بیوی کو گردہ عطیہ کر رہے ہیں تو رشتہ داروں سمیت ان کی والدہ بھی اس فیصلے سے خوش نہیں تھی تاہم محمد انور کے بقول عنبرین ان کی صرف بیوی ہی نہیں بلکہ ایک اچھی دوست بھی ہے اس لیے اس مشکل وقت میں ان کا ساتھ دینا وہ اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
انور کے مطابق ان کی والدہ کو فکر ہے کہ وہ کیوں اپنی بیوی کے لیے خود کی زندگی داؤ پر لگا رہے ہیں جبکہ انہیں کہا گیا ہے کہ خدانخواستہ اگر ان کی بیوی کو کچھ ہو گیا تو وہ انور کے لیے دوسری بیوی لے کر آئی گی لیکن انور کہتے ہیں کہ وہ عنبرین کو اپنے بچوں کے لیے زندہ دیکھنا چاہتے ہیں اس لیے وہ آخری حد تک جائیں گے۔
ادھر ہر جمعرات کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال ڈائیلاسز کے لئے آنے والی عنبرین اپنے جیون ساتھی کے اس فیصلے پر خوش اور پر امید ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگست کے پہلے مہینے میں ان کا آپریشن ہو جائے گا اور بہت جلد صحتیاب ہو کر وہ عام لوگوں کی طرح ایک اچھی زندگی شروع کر سکیں گی۔
گردے کی پیوند کاری یا ٹرانسپلانٹ
لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں نیفرولوجسٹ ڈیپارنمنٹ کی اسسٹنٹ پروفیسر حمیرا بخاری کے مطابق گردے کی پیوند کاری یا ٹرانسپلانٹ ایک کامیاب عمل ہے جس سے ناکارہ گردے کی مریض کو بچایا جاسکتا ہے بشرطیہ کہ ڈونر ( وہ شخص یا خاتون جو مریض کو گردہ دے رہا/ رہی ہو) کا گردہ صحت مند ہو اور متعلقہ مریض کے گردے سے میچ کر رہا ہو۔
ٹی این این سے گفتگو میں حمیرا بخاری کا کہنا تھا کہ اس عمل میں مریض کو گردہ دینے والے شخص یا خاتون کو مختلف میڈیکل ٹیسٹ کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔
اس سوال، کہ کون لوگ اپنا گردہ دے سکتے ہیں، کے جواب میں ڈاکٹر حمیرا نے بتایا کہ دو قسم کے لوگ اپنا گردہ کسی مریض کو دے سکتے ہیں، ایک وہ جو زندہ اور صحت ہو وہ بھائی، بہن یا کوئی بھی رشتہ دار ہوسکتا ہے جبکہ دوسرا وہ بندہ ڈونر ہوسکتا ہے جو موت کے بعد اپنا گردہ کسی کو بھی دینے کی وصیعت کرتا ہے یا وہ جو وینٹی لیٹر پر ہے اور ان کے زندہ رہنے کے چانسز بہت کم ہے لیکن گردہ صحت مند ہے وہ بھی اپنا گردہ عطیہ کرسکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان دونوں صورتوں میں گردے کا میچ ہونا ضروری ہونے کے ساتھ ساتھ ڈونر اور مریض دونوں کو ٹیسٹ کے مراحل سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔
ان کے بقول گردے کی پیوندکاری ایک کامیاب علاج ہے جس سے مریض کی جان بچنے کے ساتھ ساتھ ڈونر بھی ایک گردے کے ساتھ صحت مندانہ زندگی گزار سکتا ہے لیکن ڈائیلاسسز کوئی مستقل علاج نہیں ہے اور نا ہی اس سے مریض کی زندگی بچائی جاسکتی ہے۔
انسانی جسم میں گردے کے کردار کے حوالے سے اسسٹنٹ پروفیسر حمیرا بخاری کہتی ہیں کہ جسم میں دیگر اعضاء کی طرح گردے بھی اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں، جسم میں گردوں کا بنیادی کام خون سے فاضل مادوں اور اضافی سیال کو فلٹر کرکے پیشاب کی صورت میں جسم سے خارج کرنا ہوتا ہے جبکہ گردے بلڈ پریشر ،الیکٹرو لائٹ بیلینس اور پی ایچ کو کنٹرول کرتا ہے، ساتھ میں زہریلے مادوں کو ختم کرنے میں بھی گردے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ گردوں کی خرابی کی وجہ سے فاضل مادے اور سیال جمع ہو کر انسانی جسم میں، بلڈ پریشر، خون کی کمی، ہڈیوں کی خرابی اور دیگر مختلف اقسام کی بیماریاں پیدا کرتی ہیں۔
علامات کے حوالے سے ڈاکٹر حمیرا نے بتایا کہ ٹانگوں، ٹخنوں اور ہاتھوں میں سوجن، بار بار پیشاب کرنا، ہائی بلڈ پریشر، سانس لینے میں دشواری، ملتی، بھوک میں کمی اور صبح کے وقت سوجی ہوئی انکھیں اس بیماری کی علامات میں شامل ہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ اگر کسی انسان میں یہ علامات پائی جاتی ہے تو انہیں چاہئے کہ فوری طور پر نیفرولوجسٹ سے رجوع کریں کیونکہ گردے کی پیوندکاری بہت مہنگا ترین علاج ہے تاہم اگر بروقت علاج کیا جائے تو ان تمام مسائل سے چھکٹارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔