سیاستکالم

کیا انتخابات کے بعد جمہوریت کا اقبال بلند ہوگا؟

ابراہیم خان

وطن عزیز میں اگر جمہوریت واقعی اچھی چل رہی ہوتی تو یہ دعائیہ چاہت اندر سے نکلتی ہے کہ جمہوریت کا اقبال بلند ہو لیکن بدقسمتی سے یہاں کی جمہوریت کی آج تک سمجھ نہیں آئی کہ یہ جمہوریت کی کون سی قسم ہے؟ یہ عجیب و غریب قسم ہے جس میں روز اول سے طاقت کا سرچشمہ عوام کو کہتے زبانیں نہیں تھکتیں لیکن عملی صورت یہ کہ ملک کی یہی اکثریتی عوام کو آلو بنا بنا کر اس سے اتنی قربانیاں لے لی گئی ہیں کہ اب عوام کی حالت یہ کہ اس کے پاس ایک چادر جس سے اگر سر ڈھانپ لے تو پاؤں ننگے ہوجاتے ہیں اور اگر پاؤں ڈھانپیں تو سر کھلا رہ جاتا ہے۔

دوسری طرف وسائل پر قابض حکمرانوں کی اقلیت نے وہ مقام حاصل کرلیا ہے جہاں جمہوریت ایک وفادار لونڈی کی طرح ہاتھ باندھے کھڑی ہے، دعوے بدلتے رہے لیکن پاکستان نہ بدلا۔ یہی وجہ ہے کہ سات دہائیوں سے مقامی ماہرین جمہوریت کڑی تپسیا کے باوجود یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کی کون سی قسم رائج ہے؟ بہت سے ماہرین عمر بھر کوشش کے باوجود کچھ نہ بتا پائے اور دائمی زندگی کی طرف لوٹ گئے۔

ان ماہرین میں سے بعض تو طبعی موت سے تمام تر جمہوری راز اپنے سینے میں لیے دوسرے جہاں منتقل ہوگئے۔ البتہ بعض ایسے بھی گزرے جو پہلے لاپتہ ہوئے تو اہل خانہ شش وپنج میں مبتلا ہو گئے کہ کہیں "جمہوریت” کی کھوج ہی میں جتے ہوئے ہوں گے، لیکن پھر تلاش کے کچھ عرصہ بعد ان کی لاش سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لاپتگی میں ہی ہمیشہ کے لیے لاپتہ ہوگئے۔ اگر ملک میں حقیقی جمہوریت ہوتی تو یہ ریاست جو ماں جیسی ہوتی ہے وہ کھوج لگاتی کہ اسے کس نے، کہاں اور کیوں مارا؟ بہرحال دوسرے جہانوں کو کوچ کر جانے والے یہ ماہرین اپنے ملک میں رائج جمہوریت پر کوئی ٹھوس ریسرچ پیپر بھی پیچھے چھوڑ کر نہ جاسکے۔ اگر کچھ دستاویزی کام ہی چھوڑ جاتے تو ان کی تحقیق پر مزید کام ہوجاتا لیکن ایسا بھی نہیں ہوسکا، یہی وجہ ہے کہ آج تک معلوم ہی نہیں ہوسکا کہ پاکستانی جمہوریت کا اقبال بلند ہے ،سربلند ہے، دبا ہوا ہے، گھٹا ہوا ہے، زیر تسلط ہے یا مسلط ہے؟

پاکستانی جمہوریت کے انہی خفیہ "اوصافِ حمیدہ” کی وجہ سے ملک میں جمہوریت موسموں کی طرح رنگ ڈھنگ بدلتے رہی ہے۔ ہر بار تبدیلی کا کارن تو عوام بتائے گئے، تبدیل دونوں ہوئے تاہم فرق اتنا ہے کہ حکمرانوں کی غالب اکثریت کے مالی اثاثے راتوں رات بڑھ گئے جبکہ عوام اور ملک ہر بار ایک نئے حاکم کے ہاتھوں لٹتے گئے۔ اس ملک کی جمہوریت سے اس کے ساتھ مزید کیا کھلواڑ ہوگا کہ یہاں ایک ایسا وزیراعظم بھی امپورٹ کیا گیا جس کے پاس پاکستان کا قومی شناختی کارڈ ہی نہیں تھا۔ موجودہ پاکستانی پنجاب میں آنکھ کھولنے والے اس امپورٹڈ وزیر اعظم کو جب پاکستان کی وزارت عظمیٰ کے سنگھاسن پر بٹھایا گیا تو حیرت انگیز طور پر وہ اپنی مادری زبان پنجابی بھی بھول چکے تھے۔ اللہ ہی بھلا کرے اس پاکستانی جمہوریت کا کہ جہاں براہ راست معین قریشی کی شکل میں وزیراعظم پاکستان واشنگٹن سے امپورٹ ہوا۔ اس امپورٹڈ وزیراعظم نے اپنی” اسائمنٹ ” پوری کی اور واپس واشنگٹن چلا گیا جبکہ معین قریشی کی درآمد اور پھر بر آمدگی کے معاملے سمیت مختلف امور بارے عوام کو آج تک اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

پاکستانی عوام کو اندھیرے میں رکھنے کی یہ روایت آج بھی جوں کی توں ہے۔ لندن سے لے کر سعودی عرب تک میں پاکستان کے مستقبل کے بارے میں نشستیں ہو رہی ہیں جن میں مملکت خداداد پاکستان کے حکمرانوں کے بارے میں فیصلہ ہوچکا ہے۔ انگلیوں پر گنے جانے والے ان فیصلہ سازوں نے اپنے بیرونی سرپرستوں کو بھی اعتماد میں لے لیا ہوگا۔

ہاں اگر اعتماد میں ابھی تک نہیں لیا گیا تو وہ پاکستانی جمہوریت میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ پاکستان کی بھوکی ننگی عوام کی اس سے زیادہ اور کیا تذلیل ہوگی کہ اسے ہر وقت طاقت کا سرچشمہ قرار دیا جائے۔ دوسری طرف اس عوام کی معصومیت کو دیکھئے کہ وہ بار بار ایک ہی قسم کے لٹیروں کے الفاظ کی جادوگری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خود کو ان شکاریوں کے ہاتھوں شکار بننے والے عوام بھی بے وقوف بننے میں ید طولی رکھتے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ اس عوام کو خود کو بدلنا ہوگا، اگرچہ عوام کے اذہان کی اس تبدیلی سے بھی ختمی تبدیلی یقینی نہیں ہوگی کیونکہ اس ملک کی جمہوریت کی "حفاظت” کرنے والے انتخابی نتائج تبدیل کرنے پر ملکہ رکھتے ہیں۔

پاکستانی عوام کے ساتھ اس سے بڑا کیا مذاق ہوگا کہ ملک میں عام انتخابات ہونے کو ہیں اور وزیراعظم سمیت تمام ذمہ داران انتخابی تاریخ تک کو عوام سے چھپا رہے ہیں۔ ذرائع دعویٰ کر رہے ہیں کہ اتحادیوں نے آپس میں طے کرلیا ہے کہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت عوام کو آخر تک بے یقینی کی کیفیت کو برقرار رکھا جائے گا۔ اس سلسلے میں نگران حکومت کی ہانڈی بھی چولہے پر چڑھائی جاچکی ہے۔ ابھی تک پہلے ٹیکنو کریٹ، پھر صحافی اور نگران وزیراعظم کے بعد خبر آئی ہے کہ آنے والے وقتوں میں کسی منجھے ہوئے "اپنے” سیاستدان کو وزیراعظم بنایا جائے گا تاکہ وہ دباؤ میں بھی اپنی پرفارمنس جاری رکھ سکے۔ اس طرح نگران مشن بھی مکمل ہوجائے اور انہیں اقتدار میں لانے والے کسی ٹاک شو کی بریک کی طرح بریک لے کر واپس آجائیں مگر اس سارے عمل میں وہ تو اقتدار میں واپس آجائیں اور عوام بھاڑ میں جائیں۔

یہی پاکستان کی مروجہ جمہوریت ہے اب فیصلہ کرلیجئے کہ کیا انتخابات کے بعد جمہوریت کا اقبال بلند ہوگا یا اپنا پستی کا سفر جاری رکھے گا۔

نوٹ: ادارے کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button