آن لائن کمپنیوں سے قرضہ لینے کے بعد محمود مسعود نے خودکشی کیوں کی؟
حمیراعلیم
راولپنڈی کے چاکرہ کے محمود مسعود نے بے روزگاری کی وجہ سے گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے ایک آن لائن کمپنی سے 13 ہزار قرض لیا مقررہ تاریخ تک رقم ادا نہ کر پائے تو کمپنی نے ایک ہفتے بعد سود کے ساتھ 50 ہزار روپے کا مطالبہ کردیا۔
ایک آن لائن کمپنی کا قرض اتارنے کے لیے محمد مسعود نے دوسری آن لائن کمپنی سے 22 ہزار روپے مزید قرض لے لیا اور پھر آن لائن کمپنیوں کے گٹھ جوڑ کے باعث 6 ماہ بعد مسعود سے 7 لاکھ روپے مانگ لیے گئے۔
انہوں نے قرض اتارنے کےلیے دوستوں اور رشتہ داروں سے مزید قرض لیا لیکن آن لائن کمپنیز کا قرض نہیں اتار سکے۔کمپنی کے نمائندوں نے جب گھر کی خواتین کی تصاویر اور موبائل سے حاصل شدہ ڈیٹا لیک کرنے کی دھمکی دی تو محمد مسعود نے شدید ذہنی دباؤ میں آکر گلے میں پھندا ڈال کر خود کشی کرلی۔
یہ پہلا کیس نہیں ہے کہ کوئی شخص ان کمپنیز یا لون شارکس کے جال میں پھنس کر کر اس نہج تک پہنچ گیا کہ اسے اپنی جان لینی پڑ گئی۔ جون 2022 میں بھی کچھ ایسے کیسز سامنے آئے تھے جب کسی نے ایسی ہی ایک ایپ سے 25000 قرضہ لیا اور اس کمپنی نے ہفتے بعد 50 ہزار کامطالبہ کر دیا۔ مغربی ممالک میں، اور اب تو پاکستان میں بھی یہ سلسلہ چل نکلا ہے کہ گھر بنانا ہو، گاڑی خریدنی ہو یا پڑھائی کرنی ہو سود پر قرض لیے بغیر ممکن نہیں۔ ایک مسلمان شخص نے اسی سود در سود کی بناء پر خودکشی کر لی کیونکہ وہ بروقت اقساط ادا نہ کر پایا اور سود اتنا بڑھ گیا کہ اس کی ہر چیز قرق کر دی گئی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام نے سود کو اللہ اور رسول سے جنگ قرار دے کر اس کی برائی ظاہر کی ہے مگر المیہ یہ ہے کہ ہماری حکومت اس کاروبار کو ختم ہی نہیں کرنا چاہتی۔ ڈاکٹر ادریس زبیر اس سلسلے میں کہتے ہیں:”اسلام میں بینک کا تصور ہی نہیں یہ تو سودی نظام کو رواج دینے کا ایک حیلہ ہے۔ اس کے سائے تلے پلنا ہے۔ افسوس یہی ہے کہ اسلامی بینک کا آغاز مشارکہ ومضاربہ کی بنیاد پرہوا یعنی جو انویسٹمینٹ ہوگی اس کے نفع ونقصان سے دونوں آگاہ ہوں گے اور اس میں دونوں برابر کے شریک ہوں گے یا سرمایہ ایک کا ہوگا اور دوسرا اپنی محنت سے اس سرمائے کو جو ترقی دے گا اس میں طے شدہ نفع تقسیم ہوگا۔
ہمارے ان اسلامی بینکس نے اپنی برانچز تو بڑھا دیں مگر لوگوں کو صحیح کاروبار کرکے ان کی زندگی کو آسودہ نہ کرسکے۔ بلکہ دیگر بینک کے سسٹم کو لاگو کرکے دھوکہ یہ دیا کہ اسلامی بینکنگ ہے۔ ایسے فقہاء نے اس کی جواز کے پہلے فتوے لکھ کر دئیے کہ یہی حلال اسلامک فنانسنگ ہے جس میں بہت سے مفتی حضرات لوگوں کی اربوں روپے کی رقوم لے کر رفو چکر ہوگئے اور جو آج قانون کو مطلوب بھی ہیں۔
اور دوسری طرف حیلوں کا استعمال کرکے اسے مرابحہ کا نام دے دیا کہ جو نفع ہے اسے ہم اپنے اخراجات نکال کر فکس کرکے دیں گے اور یہ تک نہیں بتائیں گے کہ کس قسم کے کاروبار میں آپ کی رقم انویسٹ کی گئی ہے۔ اسے وہ شرعی حیلہ بھی کہتے ہیں اور اگر قسط آپ نے لیٹ کردی تو پینلٹی بھی لگائیں گے۔ جو سود کی ہی واضح شکل ہے۔
کسی نے اس حیلے کو بالکل درست بیان کیا ہے: "کہ یہ خنزیر پر بسم اللہ پڑھ کر لوگوں کو کھلا رہے ہیں اور اپنا نظام چلا رہے ہیں۔ ”
جب سے ہم نے اجتہاد کا دروازہ بند کیا ہے اور لوگوں کو تقلید کا عادی بنایا ہے ہم معاصر چیلنجز کا اسلامی حل پیش کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوگئے ہیں۔ ضرورت اب یہ ہے کہ چند معتمد کاروباری لوگ لوگوں کا پیسہ اکٹھا کرکے اسے بزنس میں لگائیں اور خداخوفی سے اس کا مناسب نفع ایسے ضرورت مندوں کو دیں جن کے پاس اب یہی دولت ہے کہ وہ خرچ کریں تو مفلوک الحال ہوجائیں گے وہ خود بزنس کرنہیں سکتے کیونکہ تجربہ نہیں اور کسی کو دے بھی نہیں سکتے اس لئے کہ اعتماد ختم ہوچکا ہے۔”
اس کا تجربہ مجھے خود بھی ہوا چونکہ سونے کی قیمت بہت بڑھ چکی ہے اور میں کوئی جاب نہیں کر رہی اس لیے زکوۃ کی ادائیگی میں مشکل پیش آ رہی تھی تو سوچا کہ جیولری بیچ کر کہیں انویسٹ کر دوں لیکن بزنس کا کوئی تجربہ نہیں اور نہ ہی کسی کو جانتی ہوں جواس معمولی رقم کو انویسٹ کرنے پر راضی ہو جائے چنانچہ اپنے بینک کے مینیجر سے بات کی۔ اگرچہ اس بینک کے ساتھ اسلامی کا لاحقہ لگا ہوا ہے مگر کام یہاں بھی سودی ہی ہے۔ مینیجر نے مجھے بینک میں موجود مفتی صاحب سے بات کر کے تسلی کرنے کا کہا۔
جب ان سے بات کی اور سوال کیا کہ مشارکہ مضاربہ کا نام تو ہے مگر آپ لوگ نہ تو یہ بتا رہے ہیں کہ رقم کس کاروبار میں لگائیں گے نہ ہی نفع نقصان کی شرح کے بارے میں کوئی اندازہ ہے۔ بلکہ ایک فکس اماونٹ منافع کے نام پر ادا کی جا رہی ہے اور جب بینک کسی بزنس مین کو قرض دیتا ہے تو 23% سود لیتا ہے۔تو منافع سود سے ہی ادا کیا جاتا ہے۔
جس پر مفتی صاحب نے اپنے تئیں اسلامی اصلاحات استعمال کرتے ہوئے مجھے گھمن گھیریاں دے کر ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ایسا نہیں بینک حلال بزنس میں پیسہ لگاتا ہے اور اس سے جو نفع ہوتا ہے وہ انویسٹرز پر تقسیم کر کے ان میں بانٹا جاتا ہے۔الحمدللہ تھوڑا بہت دین کا علم ہے اس لیے میں ان کے چکمے میں نہیں آئی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ میں مان ہی نہیں رہی تو فرمانے لگے ہمارے بینک نے کئی جید علماء سے فتاوی لے رکھے ہیں آپ انہیں پڑھ لیں۔میرا ماننا یہ ہے کہ کوئی بھی عالم خواہ کسی فرقے، مسلک یا مذہب سے ہو قرآن کی واضح آیت کے خلاف کبھی فتوی نہیں دے سکتا۔لہذا ایسے کسی جال میں پھنسنے سے بچنا ہی چاہیے۔ورنہ زندگی مشکل ہو جاتی ہے کیونکہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں۔:”اور جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کرکے اٹھائیں گے۔” طہ 124
18 مئی 2022 کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے بھی ایک الرٹ جاری کیا گیا جس میں غیر قانونی فارن ایکسچینج ٹریڈنگ ویب سائیٹس’ موبائل اپلیکیشنز اور پلیٹ فارمز کے بارے میں عوام کو خبردار کیا گیا ہے۔ اس الرٹ میں OctaFx اور Easy Forex کا ذکر کیا گیا ہے مگر ان آن لائن لون ایپس کی نشاندہی نہیں کی گئی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے سود کے بارے میں فیصلہ ایک بار پھر جاری کر دیا ہے جس پر عملدرآمد کے بارے میں حکومتی حکمت عملی ابھی سامنے آنی ہے۔ چونکہ فیصلے میں حکومت کو عملدرآمد کے لئے وقت بھی دیا گیا ہے سو دیکھنا یہ ہوگا کہ حکومت اس فیصلے پر کب اور کتنا عمل کرتی ہے۔
فی الحال تو یہی خبریں آ رہی ہیں کہ مختلف بینک اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں جانے کی تیاریاں کر رہے اور اگر یہ بات درست ہے تو ان کوششوں کو حکومتی آشیرباد ضرور حاصل ہوگی۔ بینکوں اور فنانشل سیکٹر میں جاری سودی معاملات کو ختم کرنا تو دور کی بات ہے حکومتی ادارے کم از کم نت نئے سودی بزنس ماڈلز کو تو کنٹرول کریں۔ بروقت کی طرح کی ایپس صارفین کا بھی استحصال کرتی رہی ہیں اور حکومتی ادارے بھی ان کی طرف سے صارفین کا ڈیٹا جمع کئے جانے پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ NTISB نے تو اس بارے میں اپنے ڈومین میں رہتے ہوئے الرٹ جاری کر دیا مگر دوسرے تمام حکومتی ادارے اس بارے میں بالکل خاموش ہیں۔
اگر قرض لینا اشد ضروری ہوتو دوست احباب سے لے لیجئے یااخوت نامی این جی او سے جو کہ بلا سود قرضہ بھی دیتی ہے اور بزنس کے سلسلے میں رہنمائی بھی کرتی ہے اور اگر خدانخواستہ آپ ان لون ایپس کے ہتھے چڑھ ہی چکے ہیں تو خدارا خودکشی کر کے اپنے اہل خانہ کی زندگی عذاب نہ بنائیے اور کسی بھی این جی سے مدد لے لیجئے یا اپنی مسجد کے امام صاحب سے درخواست کیجئے کہ وہ علاقے کے مخیر حضرات سے آپ کی مدد کرنے کی بات کریں۔