ابراہیم خان
وزیر اعظم شہباز شریف کو نہ جانے کیا سوجھی کہ بیٹھے بٹھائے یہ مضحکہ خیز ٹویٹ کردی کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے خلاف ’بدنیتی پر مبنی‘ مہم چلانے میں ملوث ہیں۔
بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ وہ یہ بھی کہہ گئے کہ "آرمی چیف کو قاتلانہ حملے کی دھمکی دینے کے لئے پراکسیز کا استعمال کرنے کی ان کی چال بری طرح بے نقاب ہو چکی ہے”۔ وزیر اعظم کے ذمہ دار منصب فائز کے حلف کا تقاضا تو یہ ہے کہ اگر کوئی بات درست بھی ہے تب بھی وہ اس بات کو سامنے نہ لائے، لیکن موصوف نے احتیاط نہیں برتی. ایک ایسے ذمہ دار شخص کی طرف سے اس قسم کی بات فوج کی سیکیورٹی پر سوالات کھڑے کرنے کے مترادف ہے۔
پاکستان میں فوجی سپہ سالار کے قتل کی بات کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہمارے دفاعی عمل میں خدانخواستہ کوئی جھول ہے۔اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ ایسے فرمودات سے گریز کیا جائے۔ وزیراعظم کو اگر یہ ٹویٹ اتنی زور سے آرہی تھی تو کسی اندرونی گروپ میں اسے شئیر کرکے اپنا بوجھ ہلکا کرلیتے لیکن یوں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کرتےتو اچھا ہوتا۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیر اعظم نے یہ الٹی گنگا کیوں بہاڈالی؟یہ بات جاننے کیلئے چند معروضی حالات کا تجزیہ ضروری ہے۔
وزیر اعظم اس وقت کہنے کو تو بھلے پاکستان کے چیف ایگزیکٹو ہیں ،لیکن مسلم لیگ نون کے اندر جو دھڑہ بندی ہے اس میں شہباز شریف واضح طور پر علامتی وزیراعظم بن کر رہ گئے ہیں۔ ان کی بے اختیاری کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہوگا کہ مفتاح اسماعیل ان کی دانست میں اسحاق ڈار سے بہتر وزیر خزانہ ہونے کے باوجود وہ پہلے مفتاح اسماعیل کے فیصلوں پر "ڈاری” تنقید نہ رکواسکے۔ دوسرے مرحلے میں وہ مفتاح کی وزارت اور آخری مرحلے میں ان کی پارٹی بدری تک کو نہیں بچا سکے۔ پارٹی کے اندر بھی وہ نواز شریف کی بالادستی پر سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں لیکن ان کے علاوہ جو دوسرے لوگ ان کو سائیڈ لائن کررہے ہیں اس کی وجہ سے موصوف ذہنی انتشار کا شکار ہیں۔
ان کی حیثیت بس نمائشی سی ہوکر رہ گئی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ دبئی میں جو حالیہ فیصلہ سازی کا سیشن ہوا ہے، اس میں تمام امور نون لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف نے آصف علی زرداری کے ساتھ طے کئے۔ ذرائع کے مطابق اس عمل میں بھی شہباز شریف کو نظر انداز کیا گیا جبکہ مریم نواز کے مشوروں پر زیادہ اعتبار کیاگیا۔ نواز شریف نے اس فیصلہ سازی میں حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمن کو بھی اعتماد میں لینے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ اگرچہ آصف علی زرداری نے بھی مولانا فضل الرحمان کو گھاس نہیں ڈالی لیکن زرداری کے پاس یہ عذر ضرور ہے کہ وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی جماعت پی ڈی ایم کا حصہ نہیں۔ ی
اد رہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے پیپلز پارٹی اور اے این پی کو اتحاد سے باہر کردیا تھا۔اس وجہ سے یہ "اخراج” کارڈ خاص طور پر پیپلز پارٹی بہت اچھا کھیل رہی ہے۔ وہ جہاں ضرورت ہوتو اتحادی حکومت کا حصہ بن جاتی ہے جس میں فضل الرحمن کی جماعت بھی موجود ہے جبکہ جب ضرورت سمجھیں تو پھر وہ پی ڈی ایم سے باہر رکھ لیتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگ نون کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ مسلم لیگ نون نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے کیلئے مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں بننے والا اتحاد کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کی اور یہ سارے معاملات نواز شریف نے بذریعہ شہباز شریف مولانا کے ساتھ نمٹائے تھے جبکہ اب نواز شریف نے مولانا کو اپنی روایت کے مطابق نظر انداز کیا ہے تو اس سے بھی شہباز شریف کی زیادہ سبکی ہوئی ہے۔ مولانا فضل الرحمان اس نظر انداز کئے جانے پر ناخوش ہیں ۔ان کا کہنا تھاکہ مسلم لیگ ن پی ڈی ایم کا حصہ ہے مگر اس نے ہمیں دبئی میں ہونے والی ملاقات پراعتماد میں نہیں لیا، اتنا بڑا قدم اٹھانے پر ہم سے مشاورت نہیں کی گئی،یہ معاملہ میرے ذہن میں ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) کے سربراہ کی حیثیت سے تو چاہئے تھا کہ مولانا فضل الرحمن وہ تمام فیصلے کرتے جو دبئی میں ہوئے لیکن بے چارے مولانا کو ہوا تک نہیں لگنے دی اور مبینہ مفاہمت کرلی گئی۔ مولانا فضل الرحمن ،نواز زرداری کے اس روایتی ہرجائی پن پر میڈیا کے سامنے کھلے ضرور کہ انہیں دبئی پلان پر اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا؟لیکن آخر میں یہ بھی کہہ گئے کہ پی ڈی ایم ایک سیاسی اتحاد تھا جس کی اب ضرورت باقی نہیں رہی۔
ضرورت اب دوسری طرف الیکشن کیلئے اگر کوئی باقی ہے تو وہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے بغیر الیکشن کی ہے جس کیلئے شہباز شریف نے اتنی بھاری بھرکم ٹویٹ کرڈالی۔ وزیر اعظم کی اس ٹویٹ کے علاوہ قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے بھی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین سمیت 9 مئی کے تمام ماسٹر مائنڈز کی گرفتاری کا مطالبہ کر دیا ہے۔
آفتاب شیرپاؤ کا کہنا تھا کہ بہت دیر ہوچکی، جلد سے جلد چیئرمین پی ٹی آئی سمیت نومئی کے تمام ماسٹر مائنڈز اور آلہ کاروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ان دونوں بیانات کی ٹائمنگ بہت اہمیت کی حامل ہے۔لگ بھگ اسی قسم کی بات مولانا اشرفی نے بھی کی۔ ان مطالبات سے ایک بار پھر یہ واضح ہوگیا ہے کہ حکومت ہر صورت میں اگلے عام انتخابات سے قبل عمران خان کو انتخابی عمل سے باہر کرناچاہتی ہے۔ اس کے بغیر انتخابات ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔
یاد رہے کہ آئی ایم ایف نے جس طرح پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے ملاقات کرکے انہیں اہمیت دی ہے اس کے بعد یہ خیال کیا جارہا تھا کہ اس بارے میں کچھ برف پگھلی ہے لیکن وزیر اعظم کی خلاف معمول ٹویٹ اور آفتاب احمد خان شیرپاؤ کی تاکید مزید اس امر کی دلالت کرتی ہے کہ الیکشن اسی وقت ہوں گے جب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی انتخابات میں شرکت ختم ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ تقاضوں کے باوجود انتخابات کی تاریخ سامنے نہیں آرہی۔ا یسے میں اگر وکلاء کی تحریک اگر شروع ہو گئی تو شائد انتخابات کی ہئیت کچھ بدل جائے بصورت دیگر وہی پرانا سکرپٹ برقرار رہے گا۔ اسی لئے شہباز شریف نے بھی الٹی گنگا بہادی۔