"دوسری سائیڈ پر بیٹھ جائیں کیونکہ لڑکوں کے ساتھ بیٹھنا مناسب بات نہیں آپ میچور ہیں”
مہرین خالد
میرے مطابق میچورٹی زندگی کی پختگی ہے یہ زندگی کا وہ دورانیہ ہوتا ہے جب ہم نفسیاتی و جذباتی طور پر بڑھنا شروع کرکے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بڑی بڑی باتیں کرنا بھی میچورٹی سمجھی جاتی ہے حالانکہ میچورٹی تو ہماری سوچ، نقطہ نظر، برتاؤ اور طرز عمل سے معلوم ہوتی ہے۔
یونیورسٹی میں آخری دن وائیوا سے جب واپس گھر آرہی تھی تو بس سٹاپ پر اپنی بیسٹ فرینڈ ملی جہاں پہلے ہی بہت لڑکیاں بس کا انتظار کررہی تھیں۔ تھوڑی دیر اپنی فرینڈ کے ساتھ گپ شپ لگائی کہ بس آگئی بس میں چڑھتے ہوئے صحیح دھکم پیل تھی کہ پیچھے سے فرینڈ نے آواز لگائی اپنی ساتھ والی سیٹ میرے لیے رکھنا۔ جب وہ بس میں چڑھی شیشے کی ساتھ والی سیٹ پر اسے بیٹھنے کو کہا جس پر وہ ہنسی اور کہنے لگی "یار تم کتنی اچھی ہو شیشے والی سیٹ مجھے دی” میں نے کہا یار شیشے کے سائیڈ پر بیٹھنا یا آگے بیٹھنا یہ سب اب بے معنی ہے کیونکہ میں اب میچور ہو چکی ہوں یہ کہہ کر سارے راستے میں سوچتی رہی کہ کیا واقعی میں میچور ہو چکی ہوں۔
ٹینڈے اور توری کھانا جیسے ہم اپنے ساتھ ظلم وزیادتی کی علامت سمجھتے تھے اور جس دن گھر میں ٹینڈے اور توری چولہے پر چڑھتی اس دن کھانے کا بائیکاٹ ہوتا تھا، لیکن اب سامنے ٹینڈے اور توری ہو اور ہم نہ کھائیں یہ ممکن ہی نہیں کیونکہ اب ہمیں کھانے سے زیادہ پکانے والے کا احساس ہوتا ہے اگرچہ کھانے میں تو ہم میچور ہوگئے ہیں لیکن ابو کو ہم آج بھی میچیو نہیں لگتے ہیں پر یہ دکھ اکیلا صرف میرا نہیں بلکہ تقریباً ہر بندہ اسی دکھ کا شکار ہے۔
ہمارے مشرقی والدین لاڈ، پیار اور محبت تو بے لوث بچوں کو دیتے ہیں حتیٰ کہ بچہ لڑکپن، جوانی اور بڑھاپے میں بھی ہو والدین کو بچہ ہی نظر آتا ہے بچہ نظر آنا کوئی بڑی بات نہیں لیکن بچپن سے لے کر جوانی تک اور جوانی سے گزرنے کے دوران اپنی ذات کی ملکیت، فیصلہ سازی کی اہمیت، تجربہ کاری اور اپنی پسند نا پسند کا اظہار ان سب کا اختیار بہت کم والدین اپنے بچوں کو سونپتے ہیں۔ چاہے اپنی پسند کی فیلڈ کا انتخاب کرنا ہو ، شادی ہو یا پھر کسی بھی قسم کا تجربہ کرنا ہو والدین دوسروں کی مثال دے کر بچوں کی خود اعتمادی اور پختگی کا معیار گرا دیتے ہیں کہ فلاں بھی اسی فیلڈ میں تھا یا فلاں نے بھی یہ راستہ اختیار تھا ایک روپے کا فائدہ نہیں ہوا اس کے برعکس اگر ہم مغرب کی مثال لیں تو مغربی والدین بچپن سے ہی بچوں میں پختگی، خود اعتمادی اور اپنی ذات سے متعلق چیزوں پر کامل اختیار حق دیتے ہیں تاکہ اپنے مستقبل کے لیے مختلف چیزوں کا تجربہ کرکے اچھے اور برے کی تمیز کرسکے۔ یہ بات کسی حد تک معنی خیز ہے کہ انسان غلطیاں کرکے ہی سیکھتا ہے جب تک انسان غلطی نہیں کرے گا تو اس میں میچورٹی کیسے آئے گی۔
اساتذہ بمقابلہ والدین
اساتذہ بھی طلباء کو ایک پل میں میچور تو دوسرے پل میں انمیچور کہتے یا سمجھتے ہیں۔ یونیورسٹی کے شروع کے دنوں میں ہم تمام کلاس فیلو کلاس میں ایک ہی سائیڈ پر درمیان میں اسپیس چھوڑ کے بیٹھ کر کلاس لیتے چونکہ میں کلاس میں ایک ہی لڑکی تھی۔ ایک دن کلاس کے دوران ٹیچر نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا بیٹا برا نہ ماننا آپ یہاں سے اٹھ جائیں اور دوسری سائیڈ پر بیٹھ جائیں کیونکہ لڑکوں کے ساتھ بیٹھنا مناسب بات نہیں آپ میچور ہیں مجھے امید ہے کہ آپ میری بات کو سمجھ رہی ہونگی میں تو میچور تھی کہ خاموشی سے بات سن کر دوسری سائیڈ پہ بیٹھ گئی لیکن ان کی میچورٹی پر حیرت ہوئی کہ یہ بات سب کی بجائے اکیلے میں بھی تو بتائی جا سکتی تھی۔ خیر میرا ایک کلاس فیلو جس کے ساتھ میری کافی اچھی دعا سلام تھی جو فیلڈ میں کافی مجھے سپورٹ کرتا فیلڈ میں جہاں بھی جاتی میرے ساتھ ہوتا اور اگر کسی کام میں میرا دماغ فیل ہوجاتا تو اس سے حل پوچھتی مختصراً اگر میں اسے اپنا دایاں ہاتھ کہوں تو بے جا نہیں ہوگا۔ کافی ٹائم گزرنے کے بعد ایک دن اسی ٹیچر نے ہم دونوں کلاس فیلو کو اپنے آفس میں بلایا اور کہا کہ تم دو جب ساتھ ہوتے ہو لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں حالانکہ یونیورسٹی میں باقی طلباء بھی ایک ساتھ ٹہرے اور بیٹھے ہوتے ہیں، آپ دونوں کو آخری وارننگ دیتی ہوں دوبارہ ایک ساتھ مجھے دکھائی نہ دینا جس کے بعد میرے کلاس فیلو سے کہا کہ یہ تو لڑکی ہے نادان ہے میچور نہیں ہے آپ تو میچور لڑکے ہو۔ یہ بات سن کر تو میں دنگ رہ گئی کہ پوری کلاس کے سامنے جب نصحیت کرنی تھی کہ اگلے کو شرمندگی محسوس ہو تب میں ٹیچر کے سامنے میچور تھی اور اب بھی جب میری غلطی نہیں تو میں میچور نہیں ہوں اس وقت اپنی میچورٹی کا جتنا معیار تھا ٹیچر کو سمجھایا لیکن جنس کی تفریق میں الجھی ان کی میچورٹی کا معیار بھی تب میں سمجھ گئی تھی۔
ہمارے ہاں میچورٹی کو عمر ، قد، عقل و شکل سے تشبیہ دی جاتی ہے حالانکہ یہ تو فطری عمل ہے زندگی کی کسی بھی حصے میں انسان میں آسکتی ہے۔ فیلڈ میں ہمارے سینئر صاحبان بھی اسی غلط فہمی کا شکار ہیں جو ہمارے قد، عقل و شکل اور عمر سے ہماری میچورٹی کا اندازہ لگاتے ہیں اور ساتھ ساتھ مفت مشورے بھی دیتے ہیں۔ ان کے مطابق ہمیں جرنلزم میں آنے کی بجائے کسی اور فیلڈ میں چلے جانا چاہیے تھا کیونکہ ان کے بقول جرنلزم میں کوئی روزگار نہیں، خیر اگر ہم آہی گئے ہیں تو فیلڈ میں کام کرنے کی بجائے کوئی اچھا سا بزنس کرلینا چاہئے کیونکہ ہم جرنلسٹ کی بجائے بزنس ویمن اچھی بن پائیں گی حالانکہ وہ خود پانچ، چھ میڈیا آرگنائزیشن سے کما رہے ہوتے ہیں، اور ساتھ میں یہ خوش فہمی بھی پالی ہوتی ہے کہ وہ جس طرف چھٹکی گمائیں گے ہم اسی راستے پر چل پڑیں گے اور تو اور کچھ تو ہم سے بھی زیادہ ہمارے دوستوں میں دلچسپی لیتے ہیں کہ آپ کا فلاں دوست خود بھی بے کار ہے آپ کو بھی ناکارہ بنا دیں گے۔ اب ان کو کون سمجھائیں کہ یہی فلاں بےکار دوست ہی نے تو ہمیں اس قابل بنایا ہے کہ آج ہم بلاگ لکھ سکتے ہیں۔
ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ کون کس نیت، کس وجہ اور کس لہجے میں بات کرتا ہے یہ ہم اپنی میچورٹی سمجھتے ہیں کہ ان کی باتوں کو آرام سے سن کر نظر انداز کرلیتے ہیں تاکہ جوابا ان کو احساس شرمندگی نہ ہو۔
اگر دیکھا جائے تو ہمارے ہاں انسان کو میچور بنانے کے مراحل سے گزارنے کا ایک مرحلہ شادی بھی ہے اگر کوئی غلطی سدھارنی ہو یا پھر سمجھدار و ذمہ دار بنانا ہو کسی کو تو اس کی شادی کروانے کا مشورہ دیتے ہیں بلکہ کروا بھی دیتے ہیں حالانکہ میچورٹی تو ایک فطری عمل ہے جس کو ہم جنسی یا جسمانی تعلق سے جوڑ دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں والدین بچوں کو غلطی کرنے کی عمر میں سدھارتے ہیں اور سدھارنے کی عمر میں غلطی کرواتے ہیں ۔ والدین بچوں کو بے وجہ کی روک ٹوک یا ان کے کام میں خلل پیدا کرنے کی بجائے انہیں اپنی ذات پر ملکیت کا اختیار دیں اور تجربہ کرنے کا موقع دیں تاکہ بچوں کی ذہنی نشوونما ہو جب غلطی کریں گے تب ہی صحیح اور غلط کے فرق کا احساس ہوگا اور یہی احساس بچوں میں میچورٹی پیدا کرے گا۔
آپ کے مطابق میچورٹی کیا ہے ؟