"حکیم نے جو گردہ نکالا وہ میرے ماموں کا نہیں بلکہ بلی کا گردہ تھا”
نازیہ
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بیماریاں بڑھ رہی ہے تو علاج کرنے والوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ علاج اور معالجے کی سہولیات سے محروم قوم جس کی صحت کی ذمہ داری حکومت کی ہے مگر وہ اور محاذوں پر مصروف عمل ہے تو ایسی قوم کی صحت کا کیا حشر ہوگا خود ہی اندازہ لگاسکتے ہیں۔ جب ہسپتال نام کی کوئی چیز نہیں ہوگی اگر ہوگی بھی تو اس میں ڈاکٹر نہیں ہونگے، دوائیاں نہیں ہونگی اور سہولیات کا بھی دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ہوگا تو پھر اس غریب عوام نیم حکیموں اور عطائی ڈاکٹروں سے ہی علاج کروائیں گے۔
آئیں ایک نیم حکیم کا قصہ سناتی ہوں۔ وہ حکیم کشمیر میں ایک اونچے پہاڑ میں رہتا تھا اور اس حکیم تک پہنچنا ایسا تھا جیسا کہ موت کو دعوت دینا کیونکہ راستہ بہت دشوار گزار تھا۔ وہ حکیم لوگوں کا علاج کرتا تھا۔ لوگوں کو اس کے اوپر اندھا اعتماد تھا۔ وہ بلیوں کے گردے، جگر اور دل نکال کر لوگوں کو دکھاتا کہ یہ لو میں نے اپ کا خراب گردہ، دل یا جگر نکال لیا ہے اور اب اپ ٹھیک ہو گئے ہو۔ میری پڑوسن نے مجھے اس نیم حکیم کا قصہ سنایا وہ کہہ رہی تھی کہ "میرے ماموں کے گردے کا مسئلہ تھا تو جیسے وہ علاج کے لئے گیا تو اس کو کمرے میں لے گئے اور اس کا چیک اپ کیا اور اس کو بتایا کہ اپ کے گردے میں مسئلہ ہے اور میں ابھی اپ کا خراب گردہ نکال لوں گا جوآپ کے سامنے ہوگا۔ وہ نکالا ہوا گردہ اس کے ماموں کا نہیں بلکہ بلی کا گردہ تھا”۔ اب اپ خود بتائے کہ ہم کن لوگوں کے درمیان رہ رہے ہیں۔ ہمارے یہ بے وقوف لوگ جہالت میں اتنے اندھے ہوگئے تھے کہ اس کی ہر بات پر یقین کر لیتے تھے۔ خیر پھر بعد میں اس پر چھاپا مارا گیا تھا۔
خواتین اور بڑی عمر کے افراد ان حکیموں کے چنگل میں جلدی پھنس جاتے ہیں۔ میری ایک دوست نے بتایا کہ "انکی ایک رشتہ دار بانجھ پن کے علاج کے لئے ایک نیم حکیم کے پاس گئی پہلے تو حکیم نے اس سے علاج کی غرض سے اچھی خا ص رقم بٹوری، یہاں تک کے خاتون نے اپنے زیور تک حکیم کو دے دئیے اورجب علاج کا اثر نہ ہوا تو حکیم اس عورت کو بلیک میل کرنے لگا اور بھی پیسے لاؤں وغیرہ وغیرہ”۔
ان نیم حکیموں کے الفاظ کچھ یوں ہوتے ہیں، تین دن میں کالی رنگت کا خاتمہ، باڈی بلڈ اپ، سفید بالوں سے چھٹکارا، چھوٹے قد والوں کے لیے خوشخبری، دس دن میں موٹاپے کا خاتمہ، سات دن میں جوڑوں کے درد سے مکمل نجات وغیرہ وغیرہ۔
ان نیم حکیموں کے بارے میں یہ ہولناک انکشافات سامنے آئے ہیں کہ وہ اپنی ادویات میں اسٹیریائیڈز کا استعمال کرتے ہیں جو مریضوں کو تیزی سے صحت مند بنا کر آہستہ آہستہ موت کے منہ میں دکھیل دیتے ہیں۔ یہی جعلی و نیم حکیم کینسر، ہیپا ٹائٹس، بواسیر، شوگر، گردے، مثانے کی پتھری اور بلڈپریشر وغیرہ کا جعلی علاج کرتے ہیں۔
غیر تصدیق شدہ و مضر صحت ادویات اور معجون وغیرہ سے لوگوں کا علا ج کیا جا تا ہے۔ یہ ادویات یہی ناتجربہ کار حکیم خود تیار کرتے ہیں۔ رونے کا مقام تو یہ ہے کہ یہ نیم حکیم جگہ جگہ موجود ہیں۔
آپ چاہ کر بھی ان سے چھٹکارا نہیں پاسکتے ہے۔ آپ نے کتنے ہی ایسے حکیم دیکھے ہونگے جو گھر میں کسی بیمار کا علاج اپنے مطابق کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ خود ساختہ حکیم انٹرنیٹ پر اور گلی گلی میں لوگوں کی جانوں سے کھیل کر اپنے بٹوے بھر رہے ہیں۔
ان نیم حکیموں نے اپنی اپنی دکانیں سجائی ہوئی ہے۔ اس سے بڑا فتنہ کیا ہوگا کہ ایک ہی گھر میں رہنے والوں نے یوٹیوب پر اپنے اپنے مزاج کا نیم حکیم ڈھونڈ لیا ہے اور آنکھیں بند کیے خود تو یقین کر رہے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی گھسیٹ کر نیم حکیموں کے پاس لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
پریشانی کی بات تو یہ ہے کہ شہری ڈاکٹر پسماندہ علاقوں میں جانے کے لیے تیار نہیں اور گاؤں میں عطائی ڈاکٹرز بیٹھے ہوتے ہیں جو لوگوں کی جان سے کھیل رہے ہیں۔ سب کی خواہش ہوتی ہے کہ اس ملک سے باہر جاکر ڈالر، یورو اور ریال کمائے جاۓ۔
اشتہاروں کو انگریزی اخباروں میں اس لیے نہیں چھاپتے کیونکہ ان کا ٹارگیٹ غریب، ان پڑھ اور توہمات کا شکار لوگ ہوتے ہیں۔ اس لیے اردو اخبار کے ذریعے ہی ان کی بات لوگوں تک پہنچ سکتی ہے۔ جگہ جگہ دیواروں پر ان کے پوسٹرز اور بورڈز نظر ائینگے جو محکمہ صحت اور پولیس کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کس طرح یہ نیم حکیم انتظامیہ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر غریب عوام کو صحت کے نام پر بے دردی سے لوٹ رہے ہیں۔
لوگوں کے صحت کے ساتھ اس لیے کھیلا جا رہا ہے کیونکہ اگر کوئی پولیس تک رسائی حاصل بھی کر لے تو اس کی شنوائی نہیں ہوتی کیونکہ متعلقہ تھانوں سے ان کی دوستیاں جو ہوتی ہے۔
آخر میں صرف اتنا کہونگی کہ اگر ہم یوں ہی نیم حکیم کو اپنا مرشد مانتے رہے تو نتیجے میں جان ہی خطرے میں ہو گی اس کے سوا کچھ نہ ہو گا۔
کسی بھی محفل میں اپنی کسی بیماری کا ذکر ہی نا کرے۔ کیونکہ کچھ ہی لمحوں میں آپکو سینکڑوں مفت ٹوٹکے اور نیم حکیموں کے نام اور پتے مل جائیں گے۔ ارے بس کرو ہوشیار ہو جاؤ اور اب نکل اؤ ان جعلی و نیم حکیموں کے چکر سے۔ قانون نافذکرنے والے اداروں کو ان باثر مافیاز کو لگام دینا چاہیے تاکہ انسانی جانوں سے اور نا کھیلا جائے اور ان نیم حکیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم نامہ جاری کرکے انسانی جانوں کوبچانے میں اپنا کردارادا کریں۔
اخر کب تک ہمارے ان غریب لوگوں کے صحت کے ساتھ کھیلا جائیگا؟
نازیہ مختلف سماجی مسائل پر بلاگز لکھتی ہے۔