9 مئی پر سیاسی بساط اور اداروں کا کاندھا
ابراہیم خان
پارلیمانی طرز حکومت جہاں بھی رائج ہو وہ خواہ جس قدر مضبوط ہو یانحیف ہر جگہ اس نظام میں منتخب عوامی نمائندوں کی مجلس شورٰی کو ماں کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ اس ماں کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی ہے کہ اس کا ہر عمل جمہوریت کا آئینہ دار ہو۔ اس مجلس شوریٰ کو پارلیمنٹ کہا جاتا ہے۔
وطن عزیز میں پارلیمنٹ ایک سے زائد وجوہات کی بنیاد پر بہت کمزور ہے۔ پاکستان میں جمہوریت 75 برس بعد بھی وینٹی لیٹر پر ہی چل رہی ہے اسی وجہ سے یہاں کبھی بھی مثالی جمہوریت نہیں رہی جبکہ پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں جمہوریت کی مالا جپنے والے سیاستدان ہی جمہوریت کے خلاف بروئے کار رہے تھے، ہیں اور اگر ان کے لچھن نہ بدلے تو یہ اسی روش پر گامزن رہیں گے۔ پاکستان کی جمہوریت اگر آج اس قدر نحیف ہے تو اس کی وجہ اہم سیاستدانوں بلکہ سیاسی جماعتوں کی "مفاداتی” سیاست ہے۔ ملک کی تینوں بڑی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ نون اور پاکستان تحریک انصاف ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی سہولت کاری سے مستفید ہوتی رہی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو فیلڈ مارشل ایوب خان کی انگلی پکڑ کر میدان سیاست میں آئے، میاں نواز شریف نے جنرل جیلانی کے سیاسی آشرم میں آنکھ کھولی تو عمرانی جماعت کی "نیپیاں” تک بدلنے کا قصہ پرویز الٰہی نے بغیر کسی لگی لپٹی رکھے بیان کردیا تھا۔
ان تینوں قائدین میں یہ قدر مشترک ہے کہ یہ تینوں ہی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں پر بیٹھ کر اقتدارِ تک پہنچے اور پھر مختلف نشیب و فراز سے گزر کر حالات ایسے ہوگئے کہ ان کے ضمیر جاگ گئے۔ ہونا تو چاہئے تھا کہ اگر یہ ضمیر جاگ گئے تھے تو پھر انہیں ضمیر کو دوبارہ سونے نہیں دینا چاہئے تھا، لیکن ملک کے تمام ہی سیاستدانوں نے اپنے مفاد کے تحت اپنے ضمیر کو جگانے اور سلانے پر ملکہ حاصل کر لیا ہے۔ عمران خان کے دور حکومت میں میاں نواز شریف نے ویڈیو لنک پر گوجرانولہ میں حاضر سروس فوجی سربراہ کے خلاف جو خطاب کیا تھا آج اسی نواز شریف کی جماعت پورے کا پورا یو ٹرن لے چکی ہے۔ اس نے 9 مئی کو سقوط ڈھاکہ اور اے پی ایس سے بڑا واقعہ بنا ڈالا ہے۔ روزانہ جناح ہاؤس کی جس انداز سے مختلف وفود کی زیارت کرائی جارہی ہے اس سے پی ڈی ایم اور خاص طور پر مسلم لیگ نون کوشش کے باوجود اپنے حق میں رائے عامہ ہموار نہیں کرپا رہیں، البتہ روزانہ ہونے والی ان "زیارات”سے یہ منفی پہلو نکل رہا ہے کہ کیا ہماری دفاعی لائن اس قدر کمزور ہے کہ مٹھی بھر شرپسندوں کو نہ روکا جاسکا۔ یہ لوگ جن کو لبرٹی چوک سے جناح ہاؤس پہنچنے میں سات سے آٹھ گھنٹے لگے جبکہ ساتھ ساتھ ہر لمحے مانیٹرنگ بھی ہو رہی تھی پھر ان کو کیوں نہیں روکا جاسکا۔ یہ وہ تاثر ہے جس پر اگر پاکستان کے دشمنوں نے غور کرنا شروع کردیا تو اس سے پاکستان کے دفاع کا منفی تاثر جائے گا۔
ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو اس سیاسی چال کو سمجھنا ہوگا کہ مسلم لیگ نون بالخصوص اس سارے قصے میں اپنا الو کس طرح سیدھا کررہی ہے۔
لاہور سمیت ملک کے مختلف حصوں میں 9 مئی کو جو جلاؤ گھیراؤ ہوا اس پر کوئی دوسری رائے ہو ہی نہیں سکتی کہ یہ واقعات ملک دشمنی ہے۔ ان واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جائیں اور ذمہ داران کو سزا دی جائے۔ یہ امر بھی ناقابل فہم ہے کہ جب اس عمل کی سب مذمت کررہے ہیں، تو پھر ایک مہینہ گزرنے کے باوجود ملوث افراد کے خلاف مقدمات چلانے میں کون سا امر مانع ہے؟ ان مقدمات کے چلانے میں جس قدر دیر ہورہی ہے، تو مختلف مسائل کھڑے ہو رہے ہیں۔ ایک تو مسلم لیگ نون یہ کوشش کررہی ہے کہ اس واقعے کو کھینچ کر پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے لے جا کر ملا دیا جائے اور اسی بنیاد پر عمران خان کو انتخابی منظر نامے سے ہی باہر کردیا جائے۔ اس بات کا تمام تر سیاسی فائدہ نواز لیگ کو پہنچے گا۔ البتہ اس عمل سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی ساکھ پر اثر پڑرہا ہے، حکومت اب بھی یہ تاثر دے رہی ہے کہ جیسے وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی آسانی کیلئے پارلیمنٹ سے یہ قرارداد پاس کروا رہی ہے کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں۔ یہ قرار داد اس لولی لنگڑی پارلیمنٹ نے منظور کرکے نہ صرف پارلیمنٹ کی ناک کٹوائی ہے بلکہ اس نے ملک کے عدالتی نظام پر بھی گویا عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے۔ پارلیمانی نظام جمہوریت میں اس قسم کی قراردادوں کی گنجائش صرف انہی ریاستوں میں ہوتی ہے جہاں کوئی ادارہ یا قوت پارلیمنٹ سے بالا دست ہو۔
9 مئی کے جلاؤ گھیراؤ میں ملوث افراد کے خلاف مقدمات چلانے میں جس قدر تاخیر ہورہی ہے، اسی قدر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔ ٹی وی شوز پر تجزیہ کرنے والے سابق جرنیل بھی اب یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ لاہور میں لبرٹی چوک سے جناح ہاؤس تک سات آٹھ گھنٹوں میں پہنچنے والے بلوائیوں کو کیوں نہیں روکا گیا؟ یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ پولیس سمیت باقی دفاعی لائن کہاں تھی؟ یہ سابق جرنیل 9 مئی اور 25 مئی 2022ء کا تقابل بھی کررہے ہیں کہ اس روز تو حکومت نے اسلام آباد میں قیامت صغریٰ برپاء کردی تھی تو 9 مئی کو کیا ہوا تھا؟ یہ سوالات حکومت کی صحت پر اتنا فرق نہیں ڈال رہے جتنا اس سے قانون نافذ کرنے والے ادارے متاثر ہورہے ہیں۔
نواز لیگ اس معاملے میں جس طرح شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار بن رہی ہے، اس پر بھی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو سوچنا چاہیے کہ یہ کون سی جماعت ہے؟ یہ بات کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف جن کی آج فوج کیلئے بے پناہ محبت جاگی ہوئی ہے، یہ وہی خواجہ آصف ہیں جنہوں نے عساکر پاکستان کے خلاف وہ تقریر کی تھی جس کے ٹوٹے آج بھی سوشل میڈیا پر پاکستان دشمن قوتیں نمونے کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ نواز لیگ کی چیف آرگنائزر مریم نواز بھی ان دنوں فوج کی محبت سے دوچار ہیں۔ وہ جلسہ عام میں فوج کی محبت اور 9 مئی کے واقعات کے راستے سے عمران خان کے خلاف پابندی کے مطالبے پر آجاتی ہیں۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ یہ وہی مریم ہے جس کے نام کے گرد ڈان لیکس کا دائرہ لگا تھا۔ یہ جماعت صرف بغض عمران خان میں قومی ادارے کے وقار سے بڑے طریقے کے ساتھ کھیل رہی ہے۔
نواز لیگ، عمران خان مکاؤ مہم کیلئے اداروں کا کاندھا استعمال کررہی ہے تاہم سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس انداز سے نواز لیگ اس معاملے میں سرگرم ہے تو اس طرح ملک کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کیوں 9 مئی کے واقعات کی تو مذمت کررہی ہے لیکن وہ اس معاملے کو کھینچ کر عمران خان پر پابندی کی طرف نہیں لے جارہی۔
ان محرکات پر غور کرنا چاہیے اور اگر جو لوگ 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہیں تو پھر ان کے خلاف مقدمات چلا کر ان کو سزادی جائے۔ ساتھ ہی پارلیمنٹ، جو جمہوریت کی ماں ہے، اس کی کوکھ سے ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلانے کی قرارداد سے آگے چل کر کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔ اس لئے کہ ملٹری کورٹ جو بھی فیصلہ کرے گی اس کو اعلی عدالت میں چیلنج کئے جانے کا آئینی آپشن ملزم یا مجرم کے پاس موجود ہے۔ اس لئے اداروں کو چاہیے کہ وہ اس سیاسی بساط پر غور کریں تو اس میں سب کی بہتری ہے۔
نوٹ: لکھاری کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔