"آن لائن جاب کریں اور گھر بیٹھے 50 ہزار سے لاکھ تک کمائیں”
حمیرا علیم
اکثر سوشل میڈیا پر یا اخبارات میں ایسے اشتہارات دیکھنے کو ملتے ہیں "آن لائن جاب کریں اور گھر بیٹھے 50 ہزار سے لاکھ تک کمائیں۔” ہم سب ہی یہ جانتے ہیں کہ ایسے اشتہارات فراڈ ہی ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ رجسٹریشن کے نام پر ہزاروں اینٹھ کر غائب ہو جاتے ہیں تو کچھ غلط کاموں میں ملوث ہوتے ہیں۔
میری بہن کچھ یوٹیوبرز کو فالو کرتی ہے۔ اس کے مطابق ایک یوٹیوبر نے کچھ لنکس شیئر کیے اور گارنٹی دی کہ یہ لوگ واقعی ہی آپ کو کام دیتے ہیں اور ان کے ریفرنس سے کئی لوگ ان لنکس سے لاکھوں کما رہے ہیں۔ میرا کہنا تھا کہ یہ سب فراڈ ہے جب کہ بہن بضد تھی کہ نہیں یہ خاتون درست کہہ رہی ہیں۔ حالانکہ میرے خیال میں ان یوٹیوبر کو اس پروموشن کے لیے پے کیا گیا ہو گا۔ چنانچہ بہن سے وہ لنکس لے کر ان کو میسج کر دئیے۔
جلد ہی واٹس ایپ پر رابطہ کیا گیا۔ دو خواتین نے مجھ سے میرا تعارف لیا اور ایک ویڈیو بھیج دی کہ اسے دیکھ لیں پھر کل ہمارے سینئر آپ کا انٹرویو کریں گے۔ اس ویڈیو میں کچھ مردو خواتین بار بار اس چیز کا تذکرہ کر رہے تھے کہ پاکستان کے حالات اتنے برے ہو چکے ہیں کہ جاب کر کے دو لاکھ کمانے والے کا بھی گزارا نہیں ہوتا اس لیے بزنس کرنا چاہیے۔ ہم ہوم میکرز، اسٹوڈنٹس، ڈاکٹرز وغیرہ ہیں اور ہم نے اس کمپنی کے ساتھ کام کر کے کروڑوں کما لیے ہیں اپنا گھر بنا لیا ہے، گاڑی لے لی ہے، ورلڈ ٹور کر رہے ہیں اور سات لاکھ سے زائد ماہانہ کما رہے ہیں۔ ویڈیو دیکھنے کے بعد یہ یقین تو تھا کہ یہ فراڈ ہی ہے مگر سوچا ذرا تحقیق تو کروں کہ ان کا طریقہ واردات کیا ہے۔
لہذا ان خواتین کو مطلع کر دیا ویڈیو دیکھ لی ہے جس پر ایک کال کی گئی اور ان خواتین نے کانفرنس کال پر کسی اور خاتون سے انٹرویو لینے کی درخواست کی:” میم اگر آپ کے پاس ٹائم ہے تو پلیز ایک پارٹنر کا انٹرویو لے لیجئے۔” میم نے احسان عظیم فرماتے ہوئے انٹرویو لیا۔” اپنا تعارف کروا دیجئے۔” میں نے مختصر تعارف کروا دیا تو پوچھا گیا کہ میں ماہانہ کتنی انکم کمانا چاہتی ہوں۔ کیا میں جاب کرنا چاہتی ہوں یا بزنس۔” میں نے جواب ان کے حسب منشاء دئیے کہ کم از کم دو لاکھ اور بزنس۔
اس پر کہا گیا کہ آپ کا سلیکشن ہو گیا ہے اب تین دن کی ٹریننگ دی جائے گی اور کال ڈراپ کر دی گئی۔ اس کے فورا بعد ایک خوبصورت سرٹیفیکیٹ موصول ہوا جس میں نئے پارٹنر کی سلیکشن پر اسے مبارکباد دی گئی تھی۔ اسی روز یوٹیوب اور انسٹاگرام لنکس ملے کہ میٹنگ اٹینڈ کیجئے اور مکمل ویڈیو دیکھئے کہ آپ کو ہوم ورک ملے گا۔
اگرچہ میں نے ویڈیو پوری نہیں دیکھی مگر کمنٹس ضرور دیکھے۔ کم از کم 800 لوگ موجود تھے کچھ بار بار کمنٹس کر رہے تھے” ہم بہت لکی ہیں کہ فورایور لیونگ کمپنی کا حصہ ہیں اور گھر بیٹھے لاکھوں کما رہے ہیں۔ شکریہ ایف ایل پی۔”
اور حسب معمول ان تین دنوں میں ملنے والی ویڈیوز اور میٹنگ سیشنز میں بھی مختلف خواتین و حضرات نے صرف اس چیز پر اصرار کیا کہ جاب میں کچھ نہیں ملتا اس لیے بزنس کرنا چاہیے اور ہم بہت غریب تھے اب ہم کروڑوں کما رہے ہیں۔ نہ تو کوئی یہ بتا رہا تھا کہ کام کیا ہے نہ ہی یہ کہ کیسے کام کرنا ہے۔
کمپنی کا تعارف کچھ یوں کروایا گیا:” دنیا میں 216 ممالک میں سے 175 میں ایف ایل پی ایلوویرا اور ہنی بیچ رہی ہے۔ اس کے لیے کوئی آوٹ لیٹ یا سیلز مین نہیں بلکہ آپ خود براہ راست کمپنی کو آرڈر کر کے یہ منگوا سکتے ہیں۔ 6000 آفسز ہیں لاکھوں بزنس پارٹنر ہیں اس کا سالانہ ٹرن اوور 25000 کروڑ ہے۔ اس لیے یہ فراڈ ہرگز نہیں۔ آپ گوگل کر کے دیکھ لیجئے 44 سال پرانی کمپنی ہے۔ پاکستان میں اس کا آفس اس لیے نہیں کیونکہ ہم لوگ اس کے بارے میں جانتے نہیں اور اتنے پارٹنرز نہیں کہ آفس بنایا جا سکے۔ جب کہ انڈیا میں انیس آفسز ہیں۔ کیا ہم اتنے گئے گزرے ہیں کہ انڈیا سے پیچھے رہ جائیں۔ ہم نے پاکستان کو ترقی دینی ہے اپنی حالت بدلنی ہے اس لیے ہم نے کیا کرنا ہے؟ بزنس۔” لوگ زور و شور سے ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے aور یہ کہ آپ کو رقم دوبئی سے درہموں کی شکل میں ملتی ہے تو ذرا تصور کیجئے آپ ماہانہ کتنا کما سکتے ہیں۔
چونکہ مینیجرز اور اپ لائنز، سپروائزرز کا دعوی تھا کہ وہ ڈاکٹرز، اسٹوڈنٹس اور ہوم میکرز ہیں اور اب کروڑ پتی بھی اس لیے ان کے تلفظ اور انگلش گرائمر سن کر حیرت ہوئی کہ سب کے سب میٹرک بھی نہیں لگ رہے تھے۔سونے پر سہاگہ یہ کہ ہر ایک بتا رہا تھا کہ ایف ایل پی کی 200 پلس میں سے تین پراڈکٹس کو کرونا کے دوران نوبل پرائز مل چکا ہے۔
سیریسلی، پراڈکٹس کو نوبل پرائز ہم نے تو ساری زندگی یہی دیکھا اور پڑھا ہے کہ نوبل پرائزشخصیات کو ملتا ہے لیکن اپنی قابلیت پر شک ہوا اس لیے فورا گوگل کیا کہ کیا کبھی کسی پراڈکٹ کو بھی نوبل پرائز ملا ہے؟ جواب نفی میں ہی تھا چنانچہ تسلی ہوئی کہ شکر ہے ہم اتنے بھی جاہل نہیں۔
رہا نہ گیا تو فورا اپ لائن اور ان کوالیفائیڈ ڈاکٹرز کو پوچھ لیا کہ پراڈکٹ کو نوبل پرائز کیسے ملا؟؟؟ جس پر کمنٹس آف کر دئیے گئے۔خیر تین دن ویڈیوز دیکھنے اور ہوم ورک دینے کے بعد ایک ٹیلی فون ٹیسٹ لیا گیا جسے میں نے ڈسٹنکشن کے ساتھ پاس کر لیا اور ایک اور ویڈیو ویسی ہی فضولیات کے ساتھ دیکھنے کا ٹاسک ملا لیکن اس میں ایک چیز کا اضافہ تھا جس کی مجھے توقع تھی۔
بہت سے لوگوں نے پہلے چند ماہ میں اپنی دولت مندی کی ہوشربا داستانیں سنائیں اور پھر ایک خاتون نے بتایا کہ آپ کو ایف ایل پی کی پراڈکٹس بیچنی نہیں ہیں کیونکہ آپ تو ہمارے پارٹنر ہیں آپ بزنس کر رہے ہیں۔لاکھوں کمانے کے لیے کچھ انویسٹمنٹ تو کرنی پڑتی ہے نا۔اس لیے اور دوسروں کوبہتر طریقے سے گائیڈ کرنے کے لیے کمپنی کی پراڈکٹس خریدیں تاکہ آپ پورے وثوق سے دوسروں کو ان کے رزلٹس سے آگاہ کر سکیں ۔بس 1314 درہم کی پراڈکٹس منگوائیں اور آپ کا لاکھوں کامنافع شروع۔ دیکھیں نہ یہ صرف ڈیڑھ ہزار روپیہ ہی تو ہے۔ کوئی پوچھے کہ یو اے ای کا درہم اور پاکستانی روپیہ کب سے ایک ویلیو کے ہو گئے؟؟؟
خیر یہ تو معلوم ہو گیا کہ بزنس پر اصرار کی وجہ یہی تھی کہ ایک لاکھ کی انویسٹمنٹ لی جائے۔ ہر بندے سے تقریبا ایک لاکھ اینٹھ کر نجانے یہ لوگ کیا کرتے ہوں گے؟اب اپ لائن صاحبہ نے ایک زوم میٹنگ کا لنک بھیجا جس پر میں نے ان سے پوچھ کیا آپ نے یہ پراڈکٹس خریدی تھیں؟ تو فرمانے لگیں:” جی ہاں! دیکھیں نا بزنس میں انویسٹمنٹ تو ضروری ہوتی ہے نا۔اگرچہ میرے شوہر نے مجھے بہت منع کیا تھا مگر میں نے یہ پراڈکٹس خریدیں اور اب دو ماہ میں میں نے دو لاکھ کما لیے ہیں۔ وہ بہت خوش ہیں۔”اپنے تئیں وہ مجھے متاثر کر کے گھیرنا چاہ رہی تھیں۔ مگر میں پہلے سے تیار تھی اس لیے انہیں بے حد غریبانہ جواب دیا:” اگر میرے پاس ایک لاکھ ہوتا تو میں اپنا آن لائن بزنس نہ شروع کر لیتی۔” اب خاتون کا اصرار بڑھنے لگا کہ نہیں آپ ایک بار زوم میٹنگ لے لیں پھر آپ ضرور انویسٹمنٹ پر راضی ہو جائیں گی۔میں نے بھی بڑی مشکل سے پیسے ارینج کیے تھے آپ بھی بس ایک بار انویسٹمنٹ کر لیں۔مگر میرا مقصد تو پورا ہو چکا تھا اس لیے ان کا نمبر بلاک کیا اور سکون کا سانس لیا۔
چار دن کے کچھ گھنٹے ضائع کرنے کامقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ پاکستانیوں کو اس حقیقت سے آگاہ کر سکوں کہ بھئی محنت کیے بغیر کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ جب آپ کے پاس بزنس کے لیے انویسٹمنٹ اور تعلیم و تجربہ نہیں تو جاب ہی کیجئے بس فارغ بیٹھ کر یہ انتظار نہ کیجئے کہ چھت پھٹے اور ڈالرز پاؤنڈ کی بارش ہو، آپ کا کروڑوں کا پرائزبانڈنکل آئے یا کسی انعامی اسکیم، لاٹری میں اربوں کا انعام مل جائے۔
آن لائن کام بھی کام ہی ہے مگر اپنی کوئی مہارت یا پراڈکٹ بیچیے نہ کہ کسی کم وقت میں بنا کام پیسے کے لاکھوں کروڑوں کمانے کے جھانسے میں آ کر اپنی جمع پونجی بھی گنوا دیں۔ پاکستان میں بھی سینکڑوں لوگ ہیں جو ایمزون، علی ایکسپریس، لنکڈان،یو ٹیوب وغیرہ پر پیسہ کما رہے ہیں ان سے سبق لیجئے اور خدارا شارٹ کٹ اختیار کرنے کی بجائے محنت کیجئے اور کسی بھی فراڈ کمپنی کا حصہ مت بنیے کیونکہ ایسا لگ رہا تھا کہ جو لوگ اپنا پیسہ اس کمپنی کے ہاتھوں لٹا چکے تھے وہ اب دوسرے شکار ڈھونڈ کر انہیں بیوقوف بنانے کے چکر میں تھے۔ شاید اس طرح انہیں کچھ کمیشن مل جاتا ہو گا لیکن ہر حال میں یہ سراسر گھاٹے کا سودا اور حرام کمائی ہے۔
اپنے ملک میں محنت مزدوری کر کے چند ہزار کمانے میں عزت بھی ہے اور برکت بھی جب کہ ایسی کمپنیز کا حصہ بننے میں دنیاوی ذلت تو ہے ہی اخروی گناہ بھی ملے گا۔