کاشف کوکی خیل
"اللہ نے 25 سال بعد بیٹا دیا لیکن نقلی لیڈی ڈاکٹر کی ناتجربہ کاری سے چل بسا، ماں بھی چل بسی” ضلع خیبر تحصیل باڑہ سے تعلق رکھنے والے محمد عالم (فرضی نام) نے 25 سال پہلے شادی کی لیکن اولاد سے محروم رہا۔ دوستوں اور رشتہ داروں کے مشورے پر سال پہلے دوسری شادی کرلی تاکہ دیگر والدین کی طرح اولاد کی مٹھاس دیکھ سکے۔ محمد عالم نے پہلی بیوی کے علاج معالجے پر کافی رقم خرچ کی مشہور عاملوں سے دم درود کروایا لیکن کارگر نا ہوا تو اس کے بعد دوسری شادی کرلی۔
دوسری بیوی کی عمر 28 سال تھی۔ شادی کا ایک سال ہوا تو باپ بننے کی امید پیدا ہوئی۔ 9 جون جمعہ کا دن تھا ، دوپہر کے تین بجے تھے جب زچگی کا وقت ہوا تو ساس بہو کو قریبی لیڈی گائنا کالوجسٹ کے پاس لے گئی۔ ڈاکٹر صاحبہ نے 6 بجے تک زچگی کے عمل کو جاری رکھا ، چھ بجے ڈاکٹر صاحبہ نے ساس جی کو پوتے کی موت کی خبر دیدی۔ ساس دوڑ کر بہو کے پاس گئی تو بہو کی حالت بھی غیر تھی۔ ڈاکٹر صاحبہ سے منت سماجت کرکے بہو کو بچانے کی منتیں کرتی رہیں لیکن کام نہ آئیں۔ بالاآخر ساس نے اپنے دوسرے بیٹے کو آواز دیکر بہو کو حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پہنچانے کا کہا۔ گھنٹہ دو گھنٹے میں جب ساس بہو کو حالتِ غیر میں کمپلیکس لیکر آئی تو ڈاکٹروں نے یہاں بہو کی موت کی خبر دیدی۔ محمد عالم کے بھائی نے ڈاکٹر سے وجوہات پوچھیں تو کہا گیا کہ خون کی کمی کہ وجہ سے موت واقع ہوئی ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق زچگی سے پہلے خون کا مقدار پورا کرنا چاہیئے تاہم زچگی کے دوران خون مزید کم ہوا اور ماں بچے کی موت واقع ہوئی۔ یہ رات کے ساڑھے 11 بجے تھے جب ماں اور بیٹے کو دفنانے کی تیاری پکڑی گئی۔
زرائع نے بتایا اس گاؤں میں ایک نہیں ، چھ غیر رجسٹرڈ اور نان سرٹیفائیڈ گائناکالوجسٹ کے اور دیگر کلینکس ہیں۔ خیبر میں سینکڑوں گاؤں ہیں۔ ایک گاؤں میں چھ غیر رجسٹرڈ اود غیر معیاری کلینکس ہوں گے تو پورے خیبر میں کتنے ہوں گے؟ اندازہ لگائیں۔ زرائع نے بتایا کہ یہ پہلا کیس نہیں ، اس سے پہلے بھی 25 خواتین کی اموات ہوئی ہے لیکن ایسے کلیکنس کے خلاف کاروائی نہیں ہوتی۔
ان جیسے غیر رجسٹرڈ کلینکس اور ڈاکٹرز کے خلاف کاروائی ہیلتھ کیئر کمیشن کا کام ہے لیکن قبائلی اضلاع میں کوئی کاروائی نظر نہیں آرہی۔ اس پورے واقعے پر ہیلتھ کیئر کمیشن کا موقف لینے کیلئے زمہ داروں سے رابطہ کیا لیکن جواب نہیں آیا۔ علاقہ مکینوں کے مطابق غیر رجسٹرڈ کلینکس کے خلاف کاروائی نہیں ہوگی تو مزید اموات ہوں گی ، مزید ماں بچے مریں گے۔
ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر ظفر خان نے کہا ” یہ واقعی ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن اس کے روک تھام کیلئے حکومتی ادارہ ہیلتھ کئیر کمیشن موجود ہے۔
محمد عالم اس واقعے پر ناصرف نا تجربہ کار لیڈی ڈاکٹر قصور ٹھہراتا ہے بلکہ محکمہ صحت کے اقدامات پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر چہ خیبر کے عوام سادہ لوح ہیں ، ان پڑھ ہیں اور اصلی و نقلی ڈاکٹر میں فرق نہیں کرسکتے لیکن ان چیزوں پر آگاہی دینے کا بنیادی کام محکمہ صحت اور ہیلتھ کیئر کمیشن کا کام ہے جو ابھی تک نہیں کرسکے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے ان کلینکس کے خلاف کاروائی کی جائے کیونکہ انہوں نے اپنے بیٹے اور بیوی کو کھودیا لیکن کوئی اور اولاد اور بیوی کو نہ کھوئے اور قیمتی جانوں کو بچایا جاسکے۔