عوام کی آوازکالم

پی ٹی آئی مکاؤ مہم کی مشکلات

ابراہیم خان

پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ ہر فرد نے ایک ماہ پہلے تک یہ سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ان کے اوپر ایسا جھرلو پھرے گا کہ الیکٹرانک میڈیا پر تحریک انصاف کے قائد عمران خان کی تصویر دکھانے اور پاکستان تحریک انصاف کا نام تک لینے پر پہرے بٹھا دئے جائیں گے۔ ملک کا وہ سیاستدان جو بلا خوف تردید مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہا تھا، کو اب "ڈاڈوں” نے ایسا "ڈاڈہ ” سبق پڑھایا ہے کہ عام طور پر ایسا سبق ملنے کے بعد زیادہ بے تکلفی سے پنجابی زبان میں پوچھا جاتا ہے کہ”ہن آرام اے.”

تحریک انصاف کے (اب تک) کے سربراہ عمران خان شائد یہ تو سوچتے ہوں گے کہ یہ کیا ہوگیا ؟ عمران خان 9 مئی سے قبل اپنے کارکنوں بلکہ پرستاروں کے جھرمٹ میں تخت زمان پارک پر جلوہ افروز رہے۔ چھوٹی ہی سہی مگر ان کی ایک راجدھانی اقتدار سے نکلنے پر بھی برقرار تھی، رمضان المبارک میں سحریوں اور افطاریوں کی رونقیں تھیں تو اس کے بعد کھابے چل رہے تھے۔ تخت زمان پارک کو ممکنہ حد تک تجاوزات کے بل بوتے پر وسعت دی گئی تھی جبکہ موجودہ حالات اب اس کے بالکل برعکس ہیں۔

زمان پارک کے تجاوزات کو لاہور کی انتظامیہ مسمار کرچکی ہے جس سے عمران خان کی راجدھانی کا رقبہ بھی کم ہوگیا ہے۔ وہ پرستار جو عمران خان کی ایک جھلک دیکھنے کو ترستے تھے، وہ اب پولیس کے ہاتھوں دھرلئے جانے کے ڈر سے زمان پارک کے قریب سے یوں ’نیوے نیوے” ہوکر گزرتے ہیں کہ کہیں کوئی انہیں دیکھ نہ لے۔ زمان پارک کے باہر پہلے جنونی کارکن رونق لگائے رکھتے تھے تو اب وہاں سادہ کپڑوں میں "خفیہ والے” خاموشی سے اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں۔ بھیڑ ختم ہونےکے بعد اب عمران خان کو واقعات کے بارے میں سوچنے کا بہتر موقع ملا ہوا ہے۔ سوچ وبچار کے اس عمل میں موصوف کو وہ تمام کے تمام خوشامدی اور چاپلوس تو یاد آرہے ہوں گے جو اقتدار کے دنوں میں عمران خان کے نام کی مالا جپتے نہیں تھکتے تھے۔ وہ اب یہ بھی سوچ رہے ہوں گے اپنے اعلان کے مطابق آخری گیند تک کیسے لڑنا ہے۔ اگر وہ باؤلنگ کے موڈ میں ہیں تو ان کی گیند "ٹمپرڈ” ہوچکی ہے، نہ اس گیند میں سپیڈ بچی ،نہ یہ سوئنگ کے قابل رہی اور رہی بات بیٹنگ کی تو ان کی اننگز ختم ہو چکی ہے۔

ان کے زیادہ تر بلے باز کرکٹ بھول کر وہ والے فٹ بالر بن چکے ہیں جو اپنے ہی گول پوسٹ پہ گول داغ کر ٹیم کو چھوڑ رہے ہیں۔ عمران خان کے ان حالات کو دیکھ کر بچپن میں پڑھی نصاب میں شامل علامہ اقبال کی نظم "پرندے کی فریاد ” یاد اگئی۔نظم کےپہلے شعار قارئین کی نذر ہیں۔

آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ
وہ باغ کی بہاریں، وہ سب کا چہچہانا
آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا، اپنی خوشی سے جانا

شاعر مشرق اس نظم میں اس آزاد پرندے کی قید قفس کا جو حال پیش کرتے ہیں اسے سن کر پرندے کے حال پر ترس ہی آتا ہے۔ پرندے کی یہ فریاد عمران خان کے حالات سے موافقت رکھتی ہے وہ بھی چاہے جان کا ڈر ہو یا کوئی اور عزر، لگ بھگ قفس کے اسیر بن چکے ہیں۔

تحریک انصاف کے رہنماؤں کی اکثریت نے پارٹی و عہدے چھوڑنے کے علاوہ سیاست سے بھی کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کر دیا۔ بقول عمران خان "جو لوگ اس وقت پارٹی چھوڑ گئے ہیں ان کی جگہ وہ نئے نوجوانوں کو پارٹی میں جگہ دیں گے۔” ان کا یہ بھی خیال ہے کہ وہ اس وقت تک سیاسی طور پر مضبوط ہیں جب تک ان کا ووٹ بینک برقرار اور عوامی سپورٹ حاصل ہے۔ دوسری طرف یہ بھی بڑا سوال ہے کہ کیا لوگوں کو زبردستی پارٹی چھڑوانے یا پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ہونے والے کریک ڈاؤن سے پی ٹی آئی کی حمایت کو ختم کیا جا سکتا ہے؟ تو اس کا آسان جواب نفی میں ہے۔ ابھی تک جاری ریڈز، گرفتاریاں، عدالتی پیشیاں اور پھر ملٹری کورٹس میں عام شہریوں کے مقدمات چلنے سے خوف کی فضاء تو بڑھی ہے لیکن ساتھ میں ایک انتقام کی چنگاری بھی سلگی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ فرق کہ اگر چھاپے کے دوران مطلوب فرد نہیں ملتا تو ان کے خاندان کے لوگوں کو اٹھایا جارہا ہے۔

شرمناک بات یہ ہے کہ اگر کوئی رہنماء بیرون ملک ہے تو اس کے بھائی یا بھتیجے کو بھی نہیں بخشا گیا۔ ان حالات میں پی ٹی آئی کے عام کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ اب پی ٹی آئی کو کھلے عام سپورٹ کرنے سے خوف زدہ ہیں۔ اس لیے وہ خاموش ہیں لیکن یہ اعتراف کرتے ہیں کہ "پارٹی ہمارے اندر سے نہیں نکلے گی”۔ حالات دیکھ کر کچھ بھی تو پوشیدہ نہیں رہا، کریک ڈاؤن میں پولیس کے ساتھ مبینہ طور پر مخصوص لوگ بھی ہوتے ہیں جو لوگوں کو ہراس کرتے ہیں۔ یہ طرز عمل سابقہ علاقہ غیر میں ایف سی آر کے کالے قانون کی یاد تازہ کردیتا ہے۔ اس طرز عمل سے اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ تحریک انصاف ختم ہو جائے گی تو ایسا ہونا محال ہے۔

تحریک انصاف کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اور عمران خان ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ عمران خان سیاست میں آنے سے پہلے ہی عالمگیر شہرت کے حامل تھے۔ اس لیے جو سیاسی جماعت انہوں نے بنائی اس نے عمران خان کی شہرت کو نہیں بڑھایا بلکہ عمران خان کی وجہ سے پارٹی جلد مقبول ہوگئی۔ یہی وہ وجہ ہے کہ تحریک انصاف عمران خان کی وجہ سے مقبول ہوئی۔ پاکستان تحریک انصاف سے نکلنے والے کسی دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرتے ہیں تو ان کو علیحدہ پہچان تو مل جائے گی لیکن عام انتخابات میں پھر ان کو تحریک انصاف کے جنونیوں کی ناراضگی کا سامنا بہر حال کرنا پڑے گا۔

پاکستان تحریک انصاف سے راستے جدا کرنے والوں کے آپشنز اگر دیکھے جائیں تو ان کے بارے وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ، جو پی ٹی آئی مکاؤ مہم کے سول نگران ہیں، نے بغیر کسی لگی لپٹی رکھے بتادیا ہے کہ تحریک انصاف چار حصوں میں بٹ جائے گی۔ ان کے مطابق ایک ٹولہ پیپلز پارٹی کو پیارا ہو جائے گا، تو ایک جہانگیر ترین کے ساتھ ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ ایک گروپ مسلم لیگ نون کے ساتھ کھڑا ہوسکتا ہے۔ وزیر داخلہ کی پیشن گوئی ہے کہ ایک چھوٹی سی ننھی منی سی اصل تحریک انصاف بھی زندہ رہے گی۔ رانا ثناءاللہ یہ انکشافات کرنے میں عجلت کر گئے۔ ان کے انکشافات کے بعد پنجاب کے سابق صوبائی وزراء ہاشم ڈوگر اور مراد راس نے ایک اپنے ہی گروپ کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ گروپ پولیٹیکل گروپ کم جبکہ پریشر گروپ زیادہ ہوگا، جو انتخابات سے قبل بلکہ بعد میں بھی جیتنے کی صورت میں اپنے لئے فائدے کا سودا تلاش کرے گا۔

وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کے انکشافات سے یہ اہم انکشاف کشید کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو مکمل طور کچلنے کا آپشن نہیں ہے۔ فیصلہ ساز یہ چاہیں گے بین الاقوامی دنیا کا منہ بند کرانے کیلئے ایک ایسی لولی لنگڑی تحریک انصاف چھوڑ دی جائے جو گونگی اور بہری تو ہو ہی تاہم اگر وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بھی عاری ہوتو یہ سونے پرسہاگہ کے مترادف ہوگا۔

یہ خواہش پوری بھی ہو سکتی ہے اگر اس تحریک انصاف کو عمران خان کے نہ صرف وجود بلکہ مداخلت سے ہی پاک کردیا جائے۔ حکومت اور خاص طور پر مسلم لیگ نون کی مشکل یہ ہے کہ ایسی تحریک انصاف پر بھی سوالات اٹھیں گے جس پر بیرونی دنیا کو مطمئن کرنا آسان نہیں ہوگا جبکہ عمران خان کی موجودگی میں جو تحریک انصاف چھوڑی جائے گی وہ خواہ کتنی کمزور کیوں نہ ہو اس کو زیر کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اس لیے اگر حکومت نے اب کارکنوں کی پکڑ دھکڑ کی پالیسی میں ہاتھ ہولا نہ کیا تو پھر انتقام کا جذبہ تحریک انصاف کو پھر سے جوڑنے میں معاون ہوسکتا ہے۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button