بلاگزسیاست

قبائلی خواتین جرگہ نظام سے کیوں نالاں ہیں؟

 

شمائلہ آفریدی

انسانی تاریخ کے دور میں اج تک جرگہ نظام مختلف معاشروں اور تہذیبوں میں تنازعات کے حل کیلئے جسٹس نظام رہا ہے۔ زمانہ قدیم سے مختلف تہذیبوں اور معاشروں میں جرگہ نظام کسی نہ کسی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ خاص طور پر قباٸلی معاشروں اور سلطنتوں کی مضبوطی اور استحکام کیلئے بطور خاص جرگہ کو اہمیت حاصل رہی ہے۔

پختون قبائل کی تاریخ نے جرگہ نظام کو کمال پر پہنچایا۔ مختلف ادوار میں پختون قبائل اور جرگہ ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم جز سمجھے جاتے تھے لیکن جس طرح مادہ پرستی اور جدت پسندی روایت پسندی اور قدامت پسندی کو ایک ایک کرکے کھائے جا رہی ہے وہی پر جرگہ نظام بھی اج کل زوال کا شکار نظر ارہا ہے۔ زمانے کے ارتقائی تغیرات کی وجہ سے جو منفی عوامل اس میں شامل ہورہے ہیں اس وجہ سے موجودہ دور میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد فیڈرل جسٹس سسٹم کو ترجیح دینے لگی ہیں جن سے وہ ہمیشہ نفرت کرتے ائے ہیں۔

انضمام سے قبل قبائلی اضلاع میں جرگے میں اتنی طاقت ہوتی تھی کہ وہ علاقائی سطح پر جراٸم پیشہ افراد اور ظالموں کے خلاف انتہائی اہم قدم اٹھا سکتے تھے۔ اس جرگے کے اقدام کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا۔ جراٸم پیشہ اور ظالم اور جابر لوگوں کو بھی ایک طرح سے جرگے کا خوف لاحق ہوتا تھا۔ فاٹا کا اسٹیٹس ہونے کی وجہ سے انتظامیہ بھی
یہاں کے علاقائی جرگوں میں مداخلت زیادہ نہیں کرتی تھی لیکن اب ایسا نہیں رہا۔

نیا پولیس نظام آنے پر قبائلی مشران کی طرف سے تنقید کی گئی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ جرگہ کی اہمیت ختم ہوجائے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں میں حالات بدل گئے ہیں کیونکہ اب جرگہ کو اہمیت دینے کی بجائے تھانوں کو اہمیت دی جاتی ہیں۔ زیادہ تر مقدمات جرگوں کے زریعے نہیں بلکہ تھانوں میں درج کئے جاتے ہیں۔

اسکی اہم وجہ یہ بھہ ہے کہ جرگہ نظام پہلے جیسا نہیں رہا کیونکہ اج جرگوں میں بھی ذاتی مفاد پرستی کو دیکھا جاتا ہے۔ فیصلے عدل انصاف کے بنیاد پر نہیں بلکہ اثر رسوخ رکھنے والوں کے حق میں کئے جاتے ہیں۔
قبائلی علاقوں میں زمینی تنازعات قتل و غارت جیسے واقعات کو روکنے میں بھی جرگہ سسٹم ناکام ہوچکا ہے۔
جرائم پیشہ افراد اب جرگے سے نہیں ڈرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ تھانے میں ان کو کچھ وقت بعد رہائی ملے گی۔ مجرم سمجھ چکا ہے کہ اب نہ تو کوئی جرگہ انکو جلاوطن کر سکتا ہے اور نہ ہی انکا گھر جلا سکتا ہںے بلکہ اس کے خلاف اگر کوئی جرگہ ہو بھی تو وہ تھانے اور کچھری جاکر اس کے خلاف آواز اٹھا سکتا ہے۔

انضمام کے بعد جو بڑی تبدیلی دیکھنے میں ائی ہے وہ قبائلی خواتین کا اپنے حقوق کیلئے خود اواز اٹھانا ہے۔ ماضی میں جرگے کے فیصلوں میں خواتین کو اواز اٹھانے کا کوئی حق حاصل نہیں تھا۔ بہت سے ایسے فیصلے ہوتے تھے جو خواتین کے خلاف ہوتے تھے اور ناچاہتے ہوئے بھی انکو وہ ماننا پڑتے تھے۔ اب انضمام کے بعد خواتین اپنے ذاتی نوعیت کے معاملات کی رپورٹ مقامی تھانوں میں خود درج کرسکتی ہیں۔ قبائلی مشران خواتین کے اس اقدام کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے لیکن خواتین ایسا کرنے پر مطمئن نظر اتی ہیں۔ خواتین یہ سجھتی ہیں کہ تھانوں میں مقدمات درج کرنے سے ان کے حقوق کو تحفظ مل چکا ہے۔

پختون روایات میں جرگہ کو وہ اہمیت حاصل تھی کہ اگر وہ فیصلہ سناتے تو کسی کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ اس فیصلے کے خلاف جاسکے لیکن اج جرگے کے فیصلوں پر عمل نہیں کیا جاتا جسکا جتنا اثر رسوخ ہوتا ہے وہ اگے ہوجاتا ہے۔ کسی کا کوئی خوف باقی نہیں رہا یہ پشتون قوم کی ایک قیمتی میراث تھی لیکن اج قوم اسکی حفاظت کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں۔ اگر پشتونوں نے اپنے قدیمی تشخص اور قدر ومنزلت کو دوبارہ بحال کرنا ہے تو اسے جرگہ کی ساخت اور طریقہ کار میں ضروری اور ناگزیر تبدیلیاں کرنی ہوگی اور خواتین کو اس عمل میں شامل کرنا ہوگا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button