ماحولیاتی آلودگی کی پانچ اہم وجوہات
نازیہ سلارزئی
اگر میں یہ کہوں کہ ماحولیاتی آلودگی اس دور جدید کا ایک سب سے سنگین مسٔلہ ہے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا۔ میں اگر اپنی بات کروں تو آئے روز زکام، آنکھوں میں سوجن، گلے کی خرابی اور سر درد معمول بن چکا ہے۔ جہاں بھی جاتی ہوں یا جس سے بھی ملتی ہوں تو یہی ایک شکایت ہوتی ہے کہ ہائے رے بارش نہیں ہو رہی ہے؛ ہوا آلودہ ہے، گھر میں سب کے سب بیمار پڑے ہیں، کوئی دوائی اثر ہی نہیں کر پا رہی ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کو کئی اہم مسائل کا سامنا ہے۔ سیاسی افراتفری، غربت، بے روزگاری، بدامنی، سیلاب اور اوپر سے ماحولیاتی آلودگی!
دنیا میں فضائی آلودگی سے ہر سال 70 لاکھ اموات ہو رہی ہیں۔ اگر ماحولیات کا تحفظ اتنا اہم نہ ہوتا تو دنیا بھر میں آج سے ٹھیک پچاس سال پہلے ماحولیات کے تحفظ کے لیے 5 جون کو عالمی یوم ماحولیات کا دن نہیں منایا جاتا۔ آج بھی ہر سال پانچ جون کو ماحولیات کے تحفظ کا دن منایا جاتا ہے۔
ماحولیاتی آلودگی سے متعلق میری ایک دوست نے، جس کی اپنی ایک این جی او ہے جو ماحولیاتی آلودگی کے مسائل کے اوپر کام کر رہی ہے، بتایا: "مون سون بارشوں کی بے قاعدگی، گرین ہاؤس گیسز کی وجہ سے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ، تیزی سے گلیشیئرز کا پگھلنا، سیلاب اور خشک سالی جیسے مسائل ماحولیاتی تبدیلی کا سبب ہیں۔ پاکستان بدترین ماحولیاتی آلودگی کا شکار ہے جس سے نہ صرف معیشت بلکہ عام لوگوں کی صحت بھی بُری طرح متاثر ہو رہی ہے اور سالانہ 10 لاکھ افراد فضائی آلودگی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج کرنے کے لیے ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔”
میں تو حیران اس وقت ہوئی جب مجھے پتہ چلا کہ موسمی خطرات بھگتنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا شمار ٹاپ 10 ممالک میں ہوتا ہے۔ اب آئیں میں آپ لوگوں کو وہ پانچ اہم وجوہات بتاؤں جو محولیاتی آلودگی کا سبب بن رہی ہیں۔
1 فضائی آلودگی
فضائی آلودگی سب سے خطرناک آلودگی ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ یہ تمام بیماریوں کی جڑ ہے تو یہ غلط نہ ہو گا۔ اس بارے میں، میں نے تھوڑی سی ریسرچ کی تو پتہ چلا کہ دُنیا بَھر میں روزانہ لاکھوں افراد فضائی آلودگی سے مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں جن میں سانس کی نالی میں سوزش، دَمہ، سینے کا انفیکشن، دِل کے امراض، بلڈ پریشر، ہارٹ اٹیک، انجائنا اور فالج کا حملہ وغیرہ شامل ہیں۔
کوئلہ، لکڑی، تیل یا قدرتی گیس جلانے سے نکلنے والا دھواں، اینٹوں کے بھٹے، راکھ پیدا کرنے والی فیکٹریوں سے اُٹھتا ہوا دھواں اور ناکارہ اشیاء جلانا ماحولیاتی آلودگی کا اہم سبب ہے۔
2 سڑک پر چلنے والی گاڑیاں
اس حقیقت سے بھلا انکار کیسے ممکن ہے کہ ٹرانسپورٹ کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں غربت اور علم کی کمی زیادہ ہے؛ ہر جگہ ہر دوسری گاڑی دھواں چھوڑتی ہوئ نظر آئے گی۔ ان گاڑیوں سے نکلنے والی خطرناک گیسیں کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ اور سلفر آکسائیڈز وغیرہ ہمارے سر درد، پھیپھڑوں اور دل کے امراض کا سبب بنتی ہیں۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے پاکستان جنوبی ایشیاء میں خطرناک ترین ملک بن چکا ہے۔
3 فیکٹریوں سے نکلنے والا آلودہ پانی
صنعتوں میں پانی کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے۔ صنعتوں سے فضلے کا اخراج بغیر کسی حفاظتی تدابیر کے کیا جاتا ہے۔ یہ آلودہ پانی نزدیکی جوہڑوں، ندی نالوں اور تالابوں سے ہوتا ہوا نہروں اور دریاؤں میں پہنچتا ہے اور آبی مخلوقات اور انسانی آبادیوں کے لیۓ انتہائی مہلک ہوتا ہے۔ کچھ دن پہلے ایک راستے سے گزر رہی تھی تو نظر ایک جوہڑ پر پڑی جو ایک کارخانے سے نکلا ہوا آلودہ و ناکارہ پانی تھا جس میں چھوٹے بچے ڈبکیاں لیتے نہا رہے تھے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 15 کروڑ 90 لاکھ کے قریب لوگ آلودہ پانی کو جمع کرتے ہیں۔
4 کھلے عام کوڑا کرکٹ پھینکنا
لوگ عموماً استعمال کے بعد جب اشیاء کام کی نہیں رہتیں تو جگہ کی کمی یا علم نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی جگہ پر کھلے عام پھینک دیتے ہیں۔ زیادہ تر تو میں نشئیوں اور غریب بچوں کو کوڑے کے ڈھیر میں کچرا چنتے دیکھتی ہوں۔ پھر یہی کچرا چنتے لوگ ایڈز یا ہیپٹائٹس بی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق کوڑے کا ساٹھ فیصد کھلے عام مختلف جگہوں پر پھینک دیا جاتا ہے۔ اس کوڑے کو پھر جلایا جاتا ہے۔ جلانے کی وجہ سے اس سے خطرناک گیس کاربن مونو آکسائیڈ کا اخراج ہوتا ہے جس سے سر درد، متلی، گلے کی خرابی اور زکام ہوتا ہے۔
5۔ جنگلات کی کٹائی
درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر کے ماحول کو خوش گوار بناتے ہیں مگر افسوس کہ اس کی بے دریغ کٹائی سرسبز علاقوں کو پختہ عمارتوں اور سڑکوں میں تبدیل کر رہا ہے جس کا نتیجہ میں اور آپ موسمیاتی تبدیلیوں کی صورت میں دیکھ رہے ہیں-
ماحولیاتی آلودگی دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ ماہرین کی ایک واضح اکثریت کے مطابق پانی سر سے گزر چکا ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ اس کے اثرات کو کم کرنے کیلئے اقدامات سے پہلوتہی کی جائے۔
دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پر پابندی لگانی چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ مالکان کو اپنی گاڑیوں کی مناسب دیکھ بھال کرنی چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں ایسی کوئی صورتحال نظر نہیں آ رہی کیونکہ صرف پالیسی کا ہونا کافی نہیں بلکہ اس پر صحیح طریقے سے عمل کروانا بھی ریاست کا فرض بنتا ہے۔
آلودگی کو ختم کرنے کے لیے مؤثر منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے۔ شجرکاری مہم آلودگی کے مضر اثرات کو کم کرنے میں سب سے نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ حکومت کو شجرکاری مہم کو تیزی سے چلانا چاہیے۔ فیکٹریوں سے نکلنے والے فاضل مادوں کے اخراج کو محفوظ طریقے سے نکالنا چاہیے۔
نازیہ سلارزئی اکنامکس گریجویٹ اور بلاگر ہیں۔