نازیہ سلارزئی
گزشتہ ہفتے کو ضلع باجوڑ سے ایک اندوہناک خبر پڑھنے کو ملی؛ ایک شادی شدہ خاتون، چھوٹے چھوٹے بچوں کی ماں کو کسی اور نے نہیں ان کے اپنے ہی بھائیوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس نے طلاق کے بعد، اپنے میکے یا یوں سمجھ لیں کہ ان نام نہاد غیرت مند بھائیوں سے صلاح مشورہ کئے بغیر، دوسری شادی کر لی تھی۔
بھائیوں کو اپنی بہن کی اس ”جسارت” کا پتہ تب چلا جب وہ طلاق کے بعد ایک بچی کی ماں بنی۔ پھر کیا ہوا، انہوں نے اسے ایک کمرے میں بند کر کے دوسرے شوہر کو چھوڑنے پر مجبور کیا، اور جب وہ نہیں مانی تو اسے قتل کر دیا اور خود بھی اب جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑ رہے ہیں۔
اس واقعہ کے ایک دو روز بعد دیر پائیں میں ایک بھائی نے اپنی بہن اور پھوپھی زاد بھائی کو اس لئے قتل کر دیا کہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے، اور دونوں نے آپس میں شادی کر لی تھی۔ غرض آئے روز ایسے واقعات پیش آ رہے ہیں تاہم حکومت ہو یا معاشرہ، اس حوالے سے چپ سادھے، خاموش تماشائی ہی بنے بیٹھے ہیں۔
میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا اسلام میں لڑکی کو اپنی مرضی سے شادی کا اختیار حاصل نہیں ہے؟ کیا لڑکی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایسے شخص سے نکاح کرے جسے اس کے والدین نے اس کے لئے پسند کیا ہو؟ کیا والدین کے لیۓ ضروری نہیں کہ وہ اپنی بیٹی سے اس کی مرضی پوچھیں؟
ہاں! اسلام میں لڑکی کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے نکاح کر سکتی ہے۔
اسی طرح عمررسیدہ لوگوں کے بارے میں بھی طرح طرح کی باتیں کی جاتی ہیں:
” اے بزرگو! اب اللہ اللہ کرو۔۔
اپنی عمر تو دیکھو اور اپنے کام دیکھو ذرہ۔۔
ارے بیوہ یا طلاق یافتہ ہو کر دوبارہ شادی کرنے جا رہی ہے۔۔
پاؤں قبر میں لٹکے ہیں اور شادی کرنے جا رہے ہیں۔۔”
گویا کہ یہ معاشرہ ہی طے کرے گا کہ کس نے کب، کس سے اور کیوں نکاح کرنا ہے۔
بھلا اسلام سے زیادہ کس دین نے مرضی کی شادی کی اجازت دی ہے؟ اسلام نے ہی عورت اور اس کے حقوق، مرد کی ذمہ داریاں، نکاح اور اس سے متعلق مرد و عورت کے حقوق و ذمہ داریاں تفصیل کے ساتھ بیان کی ہیں۔
والدین کے لیے ہرگز یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے لڑکے یا لڑکی پر زبردستی کریں اور ان کو ان کی مرضی کے خلاف شادی کے لیے مجبور کریں۔ والدین کے لئے اپنی اولاد کی مرضی جاننا انتہائی ضروری ہے۔
لیکن افسوس کہ ہمارے معاشرے میں کسی لڑکی کیلئے اپنی پسند کا رشتہ بتانا ناممکن سا ہے۔ اگر اپنی پسند ظاہر کرتی ہے تو اس کے گھر سے نکلنے پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ اس کی تعلیم ختم کرا دی جاتی ہے اور اکثر فوری طور پر اس کی شادی اس لئے کروا دی جاتی ہے کہ کہیں لڑکی کسی اور سے شادی نہ کر لے۔
والدین اور بچوں کے درمیان دوستی کا تعلق ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی ماں یا باپ سے دل کی بات کر سکیں نا کہ کل کو والدین کی وجہ سے کوئی انتہائی قدم اٹھا لیں۔
اولاد کو بھی والدین کی مرضی کو فوقیت دینی چاہیے۔ والدین کی مرضی کے بغیر گھر بار چھوڑ کر چلی جانے والی لڑکی چاہے کسی کی منکوحہ کیوں نہ بن جائے پر معاشرہ اسے کبھی عزت نہیں دیتا۔ اس کا سارا خاندان قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے۔ والدین معاشرے میں سر اٹھانے کے قابل نہیں رہتے۔ اس لئے جہاں تک ہو سکے نکاح کا راستہ آسان بنائیے کیونکہ اسی میں فلاح و خیر ہے لیکن افسوس کہ ہم ایسا کرتے ہیں نا ہی کرنے کو تیار دکھائی دیتے ہیں۔
ہم، باالخصوص پشتون، بڑے مسلمان بنے پھرتے ہیں لیکن اپنی بیٹی یا بہن کو یہ حق بالکل بھی نہیں دیتے کہ وہ اپنی مرضی سے نکاح کرے۔ اور پھر یہ حق تو بالکل بھی نہیں دیتے کہ بیوگی یا طلاق کی صورت میں وہ دوبارہ سے نکاح کرے۔ اسی نکاح ثانیہ پر تو ہماری یہ بہن قتل ہوئیں، اپنے ہی بھائیوں کے ہاتھوں! چلو مان لیا بہن نے صلاح مشورہ نہ کر کے، اجازت نہ لے کر غلطی ضرور کی ہے لیکن اس کی یہ سزا۔۔۔؟ یہ حق ہم آپ کو کس نے دیا ہے کہ کسی کی جان لیتے پھریں؟
نازیہ سلارزئی اکنامکس گریجویٹ اور بلاگر ہیں۔