باڑہ: پرائیوٹ سکول کے بچے سرکاری سکولوں میں داخلہ کیوں لے رہے ہیں؟
شاہ نواز آفریدی
ضلع خیبر تحصیل باڑہ کے علاقے عالم گودر کے رہائشی آٹو رکشہ ڈرائیور شہزاد چاہتے ہیں کہ ان کے بچے پرائیوٹ سکول میں پڑھائی کرکے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں لیکن فیسوں میں اضافے کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کی مستقبل کے بارے میں فکر مند ہے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے 45 سالہ شہزاد نے بتایا کہ انہوں نے اپنے دوہ بچوں ( تیرہ سالہ روح اللہ اور آٹھ سالہ عائشہ) کو پرائیوٹ سکول میں داخلہ دلوایا تھا تاہم سکول فیسوں میں مسلسل اضافے کے باعث انہوں نے مجبورا دونوں بچوں کو پرائیوٹ سکول سے نکال کر سرکاری سکول میں داخل کیا۔
شہزاد کا کہنا ہے کہ پرائیوٹ سکولز انتطامیہ سال کے آخر میں بچوں کی اگلے جماعت میں جانے پر پروموشن، اینول چارجز اور دیگر اخراجات کے نام پر ہزاروں روپے طلب کرتے ہیں جو مہنگائی کے اس دور میں غریب آدمی کی بس کی بات نہیں ہے۔
شہزاد نے بتایا مجھے روزی روٹی سے زیادہ اپنے بچوں کی اچھی تعلیم کی فکر ہے مگر آٹو رکشہ چلاتے ہوئے میں اپنے بچوں کو معیاری تعلیم کے حصول کو ممکن نہیں بنا سکتا اسی لیے میں نے پاسپورٹ بنا کر خیلجی ممالک جانے کا ادارہ کیا ہے تاکہ کم از کم وہاں محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلوا سکوں۔
شہزاد کی طرح باڑہ کے ایک اور رہائشی عبداللہ نے بھی زیادہ فیسوں اور دیگر اخراجات کی وجہ سے اپنے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کو پرائیوٹ سکول سے نکال کر سرکاری سکول میں داخل کیا ہے۔
ان کے مطابق وہ ایک نجی مل میں کام کرتے ہیں اور پرائیوٹ سکولز میں بچوں کو پڑھانے کے لیے فیسوں کے ساتھ ساتھ یونیفارم اور ٹیوشن وغیرہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے جس کی وجہ سے انہیں مالی طور پر بہت مشکلات کا سامنا ہوتا تھا۔
عبداللہ نے بتایا سرکاری سکول میں بچوں کو داخلہ کرانے کے بعد ان کی مالی پریشانی کچھ حد تک کم ہوگئی ہے کیونکہ سرکاری سکولوں میں اکثر حکومت، غیر سرکاری تنظیموں اور مخیر حضرات کی جانب سے بچوں کو سکول بیگز، شوز اور یونیفارم وغیرہ دیئے جاتے ہیں جس سے ہمیں مزید آسانی ہوتی ہیں۔
دوسری جانب باڑہ میں پرائیوٹ سکول کے پرنسپل گل ولی آفریدی کا کہنا ہے کہ پرائیوٹ سکولز اگر ایک طرف ایک بڑی تعداد میں بچوں کو پڑھائی میں مدد دے رہے ہیں تو دوسری جانب اساتذہ اور نان ٹیچنگ سٹاف کی مد میں بہت سے لوگوں میں روزگار کے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ ان کے بقول سالانہ فیسوں میں اضافہ کرنا ہر ادارے کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے جبکہ باڑہ کی سطح پر وہ اتنی ہی مقدار میں فیس زیادہ کرتے ہیں جتنی مقدار میں وہ سکول سٹاف کی تںخواہیں بڑھاتے ہیں۔
ادھر سماجی کارکن گل نذیر نے پرائیویٹ سکولوں میں بڑھتے ہوئے فیسوں اور مختلف قسم کے سالانہ فیسوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ نجی سکول کے بچے جب سالانہ امتحانات میں پاس ہو جاتے ہیں تو سکول میں سالانہ چارجز، پروموشن اور ادر چارجز (دیگر اخراجات) کے نام پر طلباء سے بہت زیادہ فیسوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے جس کی وجہ والدین اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں سے اٹھا کر سرکاری سکولوں میں داخل کرواتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ باڑہ کے بیشتر پرائیویٹ سکولز میں نویں اور دسویں جماعتوں کے ماہانہ فیس بھی تین ہزار تک ہیں۔ باڑہ میں چند ادارے اچھے ہیں ان میں داخلہ فیس بھی سات اور آٹھ ہزار روپے فی طالب علم ہے چونکہ جماعت نہم اور دہم میں پرائیویٹ اور سرکاری سکولوں کے کورسز بھی ایک ہی طرح کے ہیں تو پھر والدین مہنگائی اور کم آمدنی کی وجہ سے بچوں کو سرکاری سکولوں میں پڑھانے پر ترجیح دیتے ہیں۔