بلاگزلائف سٹائل

معاشرے کو سکون کی تلاش

 

نازیہ سلارزئی

 ہمارے معاشرے کو سکون کی تلاش اس حد تک ہے کہ میں جب بھی کسی بھی محفل میں بیٹھتی ہوں تو لوگوں سے یہی ایک بات سننے کو ملتی ہے کہ ہائے رے کہاں گیا وہ زمانہ جب سکون ہی سکون تھا۔ نا تو مہنگائی تھی نہ کوئی بد امنی تھی مطلب ہر طرف سکون ہی سکون تھا۔

میں اگر اپنی بات کروں تو میرا بھی یہی ماننا ہے کہ ہاں ان کی بات بلکل ٹھیک ہے کیونکہ اگر میں چھ، سات یا اٹھ سال پیچھے مڑ کر دیکھوں تو اتنی بے سکونی نہیں تھی۔

میں جب بھی اپنے چاروں اطراف میں دیکھتی ہوں تو مجھے ہر کسی کے چہرے پر بے سکونی، مایوسی اور حوصلے و صبر کی کمی دکھائی دیتی ہے۔

پریشانی کی بات تو یہ ہے کہ ہماری عوام کو جب سکون میسر نہ ہو تو پھر وہ سکون حاصل کرنے کے لئے متبادل راستے اختیار کرتے ہیں خواہ وہ ذہنی سکون کی ادویات ہو یا نشہ اور باقی مواد ہو ۔ ہماری نوجوان نسل نشے کی لت میں بری طرح پڑچکی ہیں۔

جیسے ہی ٹی وی ان کرتی ہوں یا موبائل دیکھتی ہوں تو تمام وہ خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں جو پریشانی اور ڈپریشن کا باعث بنتی ہیں۔

مصروف حال زندگی، بناوٹی لوگ، چند مطلبی دوست، حسد، لالچ، حرص، نفرت، مہنگائی اور معیشت کی بد حالی۔ اگر سوچوں تو اور بھی بہت سے مسائل ہیں۔ اگر لکھنے لگ جاؤں تو شاید قلم روکنے کا نام ہی نا لے۔

اور تو اور اس لمبے عرصے سے جاری سنگین سیاسی کشمکش، حصول اقتدار کی جنگ میں سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کے ایک دوسرے پر عجیب و غریب الزامات اور ملکی اداروں کے درمیان تناو کی صورتحال نے معاشرے کا سکون تباہ و برباد مزید کر کے رکھ دیا ہے۔ بے روزگاری اور مہنگائی کے ستاۓ عوام کو سمجھ ہی نہیں آرہی ہیں کہ آخر انہیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے۔

غربت و مہنگائی میں اضافہ ہونا، بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھ  جانا، ڈالر کی تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو جانا غریب کا سکون برباد نہیں کرے گی تو اور کس کا کرے گی؟ اس حالت میں سب سے زیادہ نقصان عام پاکستانی کا ہوتا ہے جوکہ بھرپور محنت و مشقت کے باوجود خوشحالی کی بجائے مہنگائی کا شکار ہورہا ہے ایسے میں اگر اس کو دو وقت کی روٹی بھی نصیب ہوتی ہے تو وہ اسے غنیمت سمجھ لیتے ہیں۔

اس میں کچھ غلطی ہماری بھی ہے کیونکہ ہمارا معاشرہ کچھ زیادہ ہی سیاست زدہ بن چکا ہے۔ ہر جگہ بس سیاسی بحث جاری رہتی ہے۔ لوگ اپنا کام کاج چھوڑ کر سیاسی گفتگو میں ہی دلچسپی لیتے ہیں بلکہ یہی عوام اپس میں لڑ رہے ہوتے ہیں سیاسی پارٹیوں کو لے کر جبکہ ان حکمرنوں کو ان عوام کی کیا خبر۔

میں تو اس کو نادانی ہی کہونگی کیونکہ سکون کے متلاشی یہی عوام کو کوئی اگر کوئی سکون کےجھوٹے سبز باغات دکھاتا ہے تو یہ اس کے پارٹی کے پیروکار بن جاتے ہیں۔ کبھی یہ انقلاب کا نعرہ لگانے والوں کے پیروکار بن جاتے ہیں تو کبھی دوسرے نعرے کا۔ جب انتخابات ہوتے ہیں تو عوام پانچ سال کے لیے نمائندوں کو منتخب کرکے اسمبلی میں بھیج دیتے ہیں جس کے بعد یہ منتخب نمائندے کرسی کا مزہ لے کر عوام کو ایسے بھول جاتے ہیں جیسے کہ وہ بنا عوام کے منتخب ہو کر اس کرسی پر براجمان ہوۓ ہو۔ پھر یہی وقت ہوتا ہے کہ ہماری عوام سکون کی متلاشی بن جاتے ہیں اور سواۓ ہاتھ ملنے یا افسوس کے ان کے پاس کچھ نہیں رہتا ہے۔

پاکستانی عوام  بیرونی قرضوں سے نجات، مہنگائی، بے روزگاری اور بد امنی کا خاتمہ چاہتی ہے۔  ہمارے ملک میں ایک طویل عرصے سے امیر امیر تر اور غریب تر ہوتا جا رہا ہے جس نے نہ صرف معاشرے میں بے چینی اور مایوسی کے پروان کو چڑھایا ہے بلکہ مختلف جرائم کو پیشے کی شکل دے دی ہے جس نے معاشرے سے سکون اور چھین لیا ہے۔

حکومت کی جانب سے موجودہ صورت حال سے نمٹنے کے لئے عوامی مسائل کا حل بہت ضروری ہے۔ عوام کے لیے ضروریات زندگی کی فراہمی کو آسان بنایا جاۓ۔

ملک میں سیاسی و معاشی استحکام  کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ان بے چین انسانوں کو سیاسی و معاشی تحفظ ملنے لگے گا تو ملک میں سکون اۓ گا جس کی وجہ سے معاشرے میں لوگوں کو بھی سکون کی سانس نصیب ہوگی۔

 

نازیہ سلارزئی اکنامکس گریجوئیٹ اور بلاگر ہے جو مختلف موضوعات پر بلاگز لکھتی رہتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button