ابراہیم خان
14 مئی کی تاریخ گزر گئی، ملک کی سب سے بڑی عدالت کی حکم عدولی بڑے طمطراق سے ہوگئی۔ مہذب معاشروں میں تو اس قسم کی حکم عدولی کا تصور کرنا بھی محال ہے لیکن پاکستان میں اس حکم عدولی پر نہ آسماں گرا نہ زمین پٹھی۔ الٹا نجی محفلوں میں کہا گیا ” ویکھیا اے ۔۔۔۔ کنج سیدھا ہویا اے،۔۔۔۔۔نے سیاستداناں نو مذاق سمجھیا سی”(دیکھا اس ۔۔۔۔۔کو کیسا سیدھا کردیا یہ۔۔۔۔ سیاست دانوں کو مذاق سمجھتا تھا) منصوبندی کے تحت کی جانے والی اس حکم عدولی سے منصوبہ سازوں نے یوں تو ایک تیر سے کئی شکار کئے لیکن محاورے کے عین مطابق ایک تیر سے دو بڑے شکار کر لئے گئے۔ توہین عدالت کی امان ہو تو پہلا شکار تو عدالت عظمیٰ بن چکی ہے جس کیلئے یہ حکم عدولی حلق میں پھنسے اس کانٹے کی سی ہے جس کو نہ نگلا جاسکتا ہے اور نہ ہی اگلا جاسکتا ہے حکم عدولی کا دوسرا شکار پاکستان تحریک انصاف کی جماعت کا مستقبل ہے۔ یہ جماعت مقبولیت کے گھوڑے پر سوار کسی کو خاطر میں ہی نہیں لا رہی تھی۔ اس بارے میں بھی کوئی شک نہیں ملکی تاریخ میں اب تک سامنے آنے والی جماعتوں میں پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ بے نظیر واقعات ہوئے۔
ان واقعات کا سہولت کاری کے سابقہ دور جس میں بقول پرویز الٰہی ملٹری سٹیبلشمنٹ ہی پی ٹی آئی کی "نیپیاں” تک بدلتی تھی کا ذکر نہیں ہوگا بلکہ یہ تذکرہ وہاں سے شروع ہوگا جب سٹیبلشمنٹ نے اس پارٹی کے سر سے "دست شفقت” اٹھالیا۔ ان حلقوں نے نہ صرف خود تحریک انصاف کی حمایت ترک کی بلکہ عدالت عظمیٰ کو بھی اس قدر ” قوت” فراہم کردی کہ اس نے متوقع حکم عدولی پر شب بارہ بجے عدالت سجالی۔ اس خبر کے ملتے ہی پاکستان تحریک انصاف نے بوریا بستر لپیٹا اور پارلیمان سے باہر نکل آئی۔ یہ وہ وقت تھا کہ پاکستان تحریک انصاف اپنے دور حکومت میں ہونے والی مہنگائی کی وجہ سے اچھی خاصی غیر مقبول ہوچکی تھی۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار آئینی طریقے سے قومی اسمبلی میں حکومت وقت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔
ماضی میں حکومتیں جس طرح بھی ختم ہوتیں تو ان کی اقتدار سے بے دخلی پر حکومتی عہدیداروں کے علاوہ کسی کو رنج نہیں ہوتا تھا۔ حکومتوں کی رخصتیوں پر مٹھائیاں تقسیم ہوا کرتی تھیں، لیکن پاکستان تحریک انصاف پر شہرت کی دیوی اس طرح مہربان ہوئی کہ اس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ یاد رہے کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اپنے دور کے مقبول لیڈر تھے لیکن جب جنرل ضیاء الحق نے ان کی حکومت وقت کا دھڑن تختہ کیا تو مقبول لیڈر ہونے کے باوجود عوام سڑکوں پر نہیں نکلے۔ جو کہیں تھوڑے بہت نکلے بھی تو وہ صرف جیالے تھے جن کی تعداد انتہائی کم تھی۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوئی تو قیادت کی طرف سے احتجاج کے لئے کال دی گئی۔اس احتجاج کے لئے مختلف شہروں میں مقامات کا چناؤ کیا گیا۔ احتجاج کے بارے میں عام خیال یہی تھا کہ سابقہ روایات کے مطابق لوگ نہیں نکلیں گے لیکن مقام حیرت یہ تھاکہ عوام کا جم غفیر بے دخل کی گئی حکومتی پارٹی سے اظہار یکجہتی کے لئے نکل آیا۔اس کے مقابلے میں جو اتحادی حکومت مرکز میں بنی اس کی ڈرائیونگ سیٹ پر مسلم لیگ نون کے میاں شہباز شریف بطورِ وزیراعظم براجمان تو ہوئے لیکن ملک کی جو معاشی حالت تھی، ان کے دور میں بہتری نہیں لائی جا سکی۔
وزارت خزانہ کے امور میں لندن میں بیٹھے اسحاق ڈار وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو نیچا دکھانے کیلئے مسلسل مداخلت کرتے رہے۔ یہ بہت دلچسپ مرحلہ تھا جس میں مفتاح اسماعیل تو شہباز شریف کی پسند تھے جبکہ اسحاق ڈار کو نواز شریف کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ اس مقابلے میں میاں نواز شریف کے دھڑے کی جیت ہوئی تو دیگر لیگیوں پر بھی یہ واضح ہوگیا کہ وزیراعظم ہونے کے باوجود بھی پارٹی میں طاقت کا منبع نواز شریف ہی ہیں۔
نواز شریف نے مفتاح اسماعیل سے کھڑے کھڑے استعفیٰ لے لیا اور نیب سے کلین چٹ حاصل کرکے اسحاق ڈار کو پاکستان کا وزیر خزانہ بنا کر پاکستان بھیج دیا گیا۔ یہ وہ اہم موقع تھا کہ اگر اسحاق ڈار سنگین معاشی غلطیاں نہ کرتے تو شائد تحریک انصاف کی مقبولیت کو روکا جاسکتا تھا۔ اسحاق ڈار نجانے کس زعم میں تھے کہ انہوں نے آئی ایم ایف کو بھی للکار دیا، اور بعض ایسے اقدامات کئے جن کی وجہ سے ملک میں مہنگائی بڑھ گئی۔ مہنگائی کے بڑھنے اورخاص طور پر مسلم لیگ کے اندر جاری چپقلش کی وجہ سے تحریک انصاف کو فائدہ پہنچا۔ ان حالات کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت بڑھتی رہی۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے نے بھرپور طریقے سے جلسے کئے اور ضمنی انتخابات کے مراحل سرکرکے یہ بتادیا کہ ان کی جماعت مقبولیت کے راست پر ہے۔دوسری طرف حکومت مہنگائی پر مہنگائی کرنے پر مجبور ہوتی رہی جبکہ آئی ایم ایف سے بھی معاملات آگے نہیں بڑھ سکے۔ اس بناء پر حکومت غیر مقبول ہوئی اور تحریک انصاف کو مقبول ہونے میں مدد ملی۔ پاکستانی عوام کی روایت کے مطابق عوام جو عمران خان کے دور میں مہنگائی سے جان بلب تھے انہوں نے عمران دور کو اچھا کہنا شروع کر دیا۔اس وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا۔
حکومت نے تحریک انصاف کی قیادت کے خلاف نئے سکینڈل بھی نکالے لیکن بات نہیں بنی۔ عمران خان کو گرفتار کرنے کی کوششیں ناکام ہوئیں تو پارٹی کے اندر سے سے یہ بات نکلی کہ عمران خان کی گرفتاری ہماری ریڈ لائن ہے۔پارٹی کے قائدین یہ کہتے تھے کہ عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو اس کے سنگین اثرات برآمد ہوں گے۔
ریڈ لائن کے اس پس منظر میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے جس انداز میں رینجرز نے عمران خان کو گرفتار کیا،یہ مناظر اگلے چند سیکنڈ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئے۔ اگر عمران خان کی گرفتاری کے یہ مناظر وائرل نہ ہوتے یا پھر انہیں مہذب انداز سے ہائی کورٹ کے احاطے سے باہر گر فتار کیا جاتا تو عین ممکن ہے کہ تحریک انصاف کے جنونی کارکن اتنا سیخ پا نہ ہوتے اور ان کی طرف سے اس قدر توڑ پھوڑ بھی نہ ہوتی۔مظاہرین نے حساس مقامات پر بھی دھاوا بولا اور وہاں جلاؤ گھیراؤ کیا جس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ یہ جلاؤ گھیراؤ جس میں کور کمانڈر لاہور کا تاریخی گھرایک طرف تو دوسری طرف پشاور میں تاریخی ریڈیو پاکستان کی عمارت کو جس طرح نذرآتش کیا گیا وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔
ان واقعات کی وجہ سے حکومت کو اس بات کا موقع مل گیا ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف کوئی بڑی کارروائی کر سکے، جس میں ممکنہ طورپر پارٹی پر پابندی کے ساتھ ساتھ عمران خان کو طویل عرصے تک نااہل کرنا شامل ہے۔اس طرح پاکستان تحریک انصاف بھی پہلی بار بیک فٹ پر دکھائی دے رہی ہے۔ اس صورتحال کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے پارٹی کے اندر سے پہلی چھلانگ ایم این اے محمود مولوی نے لگادی ہے۔ محمود مولوی کے پارٹی چھوڑنے کو بعض حلقے پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت میں کمی کے آغاز سے تعبیر کررہے ہیں۔حکومت سپریم کورٹ پر پاکستان تحریک انصاف کی جانبداری کے الزامات کی بنیاد پر اس تمام تر جلاؤ گھیراؤ میں ملوث ملزمان خلاف کارروائی کیلئے آرمی ایکٹ کی راہ براستہ پارلیمنٹ ہموار کرچکی ہے۔ غالب گمان یہ کیا جارہا ہےکہ اس عمل کے ذریعے پاکستان تحریک انصاف پر پابندی یا کم ازکم عمران خان کو دس برس کیلئے نا اہل کردیا جائے۔ اس طرح نواز شریف کی لیول پلیئنگ فیلڈ کی فرمائش پوری کی جاسکتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو آرمی ایکٹ کے تحت درج شدہ دو مقدمات میں ملزم نامزد کر دیا گیا ہے۔امکان یہ ہے کہ یہ مقدمہ اب چلے گا جس کا جو بھی فیصلہ ہو لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ اس فیصلے کے خلاف اپیل ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی دائر ہوسکتی ہے۔ ان اپیلوں کا حق عمران خان کی نااہلی سے بچنے کی ایک امید تو ہوگی لیکن تحریک انصاف خود کو اس بدترین انجام سے کس طرح بچاتی ہے،یہ اس کا بڑا امتحان ہے۔ ان امکانات میں سے پاکستان تحریک انصاف پر بطور پارٹی پابندی سے نمٹنا کوئی مشکل کام نہیں ہوگا۔ماضی میں حیدرآباد ٹربیونل کیس میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگی تو اگلے پانچ منٹ میں نیشنل عوامی پارٹی نئے نام عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے معرض وجود میں آچکی تھی۔ پاکستان تحریک انصاف کے لئے سب سے بڑا مرحلہ ان کے قائد عمران خان کی متوقع نااہلی کا مرحلہ ہے۔حکومت اور دیگر بااثر حلقے اس بات پر آمادہ بلکہ تیار دکھائی دیتے ہیں کہ عمران خان کو نااہل قرار دے کر نواز شریف کی خواہش پوری کر دی جائے۔
پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان خود بھی اس خدشے کا اظہار کرچکے ہیں کہ حکومت انہیں نااہل کرنا چاہتی ہے۔ عمران خان کے لئے یہ حالات بہت کٹھن ہے ہے انہیں فوری طور پر عدالتوں میں بھی پیش ہونا ہے اور ساتھ ہی مستقبل کے ان چیلنجز سے عہدہ برا ہونے کی حکمت عملی بھی اپنانی ہے۔ عمران خان کے بارے میں اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ان کی سیاسی ٹیم اس وقت تتر بتر ہو چکی ہے ان کے مرکزی عہدیداروں میں سے زیادہ تر جیلوں میں قید ہیں۔ حکومت ان رہنماؤں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں پابند سلاسل کرنا چاہ رہی ہے۔اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ ایک مقدمے سے اگر کسی رہنما کی ضمانت ہوتی ہے تو اسے فوری طور پر ایک اور مقدمے میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اس امتحان سے کس طرح نکلے گی ،یہ پارٹی کا سب سے بڑا امتحان ان ثابت ہوگا۔ دوسری طرف پارلیمنٹ کی مدد سے حکومت اس مرحلے کیلئے جتنے بھی راستے ہموار کر لے،لیکن اس کے لئے بھی یہ مراحل طے کرنا اس قدر آسان نہیں ہوگا جتنا وہ سمجھ رہی ہے۔