کیلاش قبیلے کا سالانہ مذہبی تہوار چیلم جوش اختتام پذیر
گل حماد فاروقی
کیلاش قبیلے کا سالانہ مذہبی تہوار چیلم جوش جسے مقامی زبان میں جوشی بھی کہلاتا ہے اپنی تمام تر رنگینیوں اور رعنائیوں کے ساتھ وادی بمبوریت میں احتتام پذیر ہو گیا تاہم یہ تہوار کیلاش وادی بریر میں جاری ہے۔ موسم بہار کے اس تہوار میں کیلاش مرد ڈھولک بجاتے ہیں جبکہ کیلاش کی خواتین گول دائریے میں کندھے سے کندھا ملاکر مذہبی گیت گاتی ہوئی رقص کرتی ہیں۔ کیلاش قبیلے کے مذہبی رہنماء جنہیں قاضی کہا جاتا ہے وہ اس محفل کے درمیان میں کھڑے ہوکر دعائیں اور مذہبی گیت گاتے ہیں جبکہ ان کے اہل و عیال ان کے ٹوپی کو سو، پانچ سو، ہزار روپے کے نوٹوں سے سجاتے ہیں۔ یہ ان کی ان کیلئے عزت اور اکرام کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔
دوپہر تک کیلاشی خواتین اور بچے محتلف دیہات سے گیت گاتی ہوئے ڈھولک کی تھاپ پر رقص کرتے ہوئے ٹولیوں کی شکل میں چرسو یعنی رقص گاہ جمع ہوتے ہیں۔ دوپہر کے بعد کیلاش کے لوگ ہاتھوں میں اخروٹ کی ٹہنی اور پتے پکڑ کر ان کو لہرا لہرا کر مرکزی رقص گاہ یعنی چرسو کی طرف دھیرے دھیرے گامزن ہوتے ہیں اس دوران کسی مسلمان یا دیگر مذہب کے لوگوں کو اس جلوس میں شامل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ لوگ جب چرسو پہنچ جاتے ہیں تو وہاں خوب جی بھر کر رقص کرتے ہیں۔
عصر کے بعدکیلاش کے مذہبی رہنماء یعنی قاضی حضرات گندم کے فصل میں دودھ چڑھکاتے ہیں جو برکت کیلئے کیا جاتا ہے جبکہ مرد لوگ چرسو سے دور جاکر اپنے ہاتھوں میں اخروٹ کے ٹہنی، پتے یا پھول پکڑ کر اپنے زبان میں اونچی آواز میں دعا یا مذہبی گیت گاتے ہوئے آہستہ آہستہ رقص گاہ کی طرف آتے ہیں۔ مگر ان کے سامنے کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے فرد کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ چرسو میں خواتین بھی ہاتھوں میں ٹہنیاں اور پتے پکڑ کر انہیں لہرا لہرا کر گیت گاتی ہیں اور مردوں کا انتظار کرتی ہیں۔
جب مرد حضرات اپنے قاضیوں کی قیادت میں رقص گاہ یعنی چرسو پہنچ جاتے ہیں تو ہاتھوں میں پکڑے ہوئے پتے اور ٹہنیاں ان خواتین پر نچاور کرتے ہوئے سب گل مل جاتے ہیں اور اکٹھے رقص پیش کرتے ہیں۔ اس تہوار کو دیکھنے کیلئے کثیر تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح آئے ہوئے تھے۔ تاہم راستوں کی خرابی اور سیاحوں کیلئے بیٹھنے کی جگہ اور دیگر سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ان کو چند مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ چترال ٹریول بیورو کی دعوت پر فن لینڈ سے درجن بھر سیاح پہلی بار وادی کیلاش آئے تھے۔ ان سیاحوں سے جب اس تہوار کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ جو سرکاری اور غیر سرکاری ادارے سیاحت کو ترقی دینے کیلئے کام کرتے ہیں ان کو چاہئے کہ سیاحت پہ مزید توجہ دے اور اسے فروغ دینے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھاتے ہوئے ان پر مزید کام کرے تاکہ سیاحوں کو آنے جانے میں مشکلات کا بھی سامنا نہ ہو اور یہاں زیادہ سے زیادہ سیاح آنے سے اس علاقے کے لوگوں کی معاشی زندگی میں بھی بہتری آئے گی۔
بعض سیاحوں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ چترال میں محتلف تہوار، میلے یا ٹورنمنٹ منانے کے نا م پر قومی خزانے سے جو خطیر رقم نکلتی ہیں انہیں اگر افسر شاہی کو وی آئی پی پروٹوکول دینے یا چند افسران اور ان کے اہل حانہ خوش کرنے کی بجائے یہاں کی سڑکوں کی تعمیر و مرمت اور مزید انتظامات بہتر کرنے پر خرچ کی جائے تو اس سے بڑا فائدہ ہوگا۔ اس سے اگر ایک طرف سیاحوں کو آنے جانے میں مشکلات کا سامنا نہیں ہوگا تو دوسری طرف سیاحت کو فروغ دینے سے یہ علاقہ بھی ترقی کرسکے گا اور یہاں سے غربت کا حاتمہ ممکن ہوسکے گا۔