کوئٹہ میں گاڑی چلانا موت کے کنوئیں میں کار چلانے کے مترادف ہے
حمیراعلیم
17 مئی سے 23 مئی تک عالمی روڈ سیفٹی ویک منایا جاتا ہے۔ اس ویک کا مقصد رفتار کم رکھ کر سڑک پر ہونے والےحادثات میں کمی، حادثہ ہونے کی صورت میں ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی تربیت دینا اور سڑکوں کو کاربن فری اور گرین زون بنانا ہے۔
پاکستان میں بھی یہ ہفتہ منایا جاتا ہے اور شاید یہ واحد ہفتہ ہوتا ہے جس میں کچھ شہروں میں ٹریفک پولیس بڑی خوش اخلاقی سے عوام کو ٹریفک قوانین پر عمل کرنا سکھانے کی کوشش کرتی ہے۔ باقی سارا سال نہ تو ٹریفک پولیس کو اپنی ڈیوٹی سے دلچسپی ہوتی ہے نہ ہی عوام ان کی کسی بات پر کان دھرتی ہے یا اشارے فالو کرتی ہے۔
اسلام آباد، لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں اگرچہ ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کی پوری کوشش کی جاتی ہے لیکن گاڑیوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ اکثرٹریفک جام ہی رہتی ہے۔ اسلام آباد میں یہ صورتحال اس وقت ہوتی ہے جب کسی ملکی یا غیر ملکی وی آئی پی کے لیے پروٹوکول لگتا ہے یا کوئی ہڑتال یا ہنگامی صورتحال ہوتی ہے عموما یہاں ٹریفک جام کم ہی ہوتا ہے جبکہ لاہور اور کراچی کے کچھ ایریاز تو ایسے ہیں جہاں چند گھنٹوں کا ٹریفک جام نہ ہو تو لوگ پریشان ہو جاتے ہیں۔
چند سالوں سے کوئٹہ میں رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے کوئٹہ کی ٹریفک کا حال دیکھا تولگا کہ ہم پنڈی اسلام آباد والے تو کسی مغربی ملک میں رہ رہے ہیں کیونکہ پورے کوئٹہ میں اول تو ٹریفک لائٹس ہیں ہی نہیں اور اگر کہیں غلطی سے دکھائی دے بھی جائیں تو کام نہیں کرتیں۔ ٹریفک پولیس بھی چند ایک سڑکوں اور مرکزی چوراہوں پر موجود دکھائی تو دیتی ہے لیکن ٹریفک کنٹرول کرتے ہوئے نہیں بلکہ سڑک کنارے کسی درخت کی چھاوں یا اپنی گاڑی کے کیبن میں پانچ چھ کی ٹولی کی صورت میں چائے پیتے یا گپ شپ کرتے ہوئے۔
اور جو کبھی غلطی سے وہ ٹریفک کنٹرول کرنے کی گستاخی کر ہی بیٹھیں اور چار بندے چوراہے کی چاروں سمتوں میں کھڑے ہو کر اپنی طرف کی گاڑیوں کو رکنے کا اشارہ کریں تو لوگ چل پڑتے ہیں اور چلنے کا اشارہ کریں تو اندھا دھند گاڑیاں بھگانے لگتے ہیں۔ اول تو ٹریفک پولیس اہلکار کسی گاڑی والے کو روک کر بازپرس کرتے نہیں اور جو کبھی کسی کو روک ہی لیں تو اگلا بندہ انہیں کسی منسٹر یا آفیسر کی رشتہ داری بتا کر جھاڑ کر آگے بڑھ جاتا ہے اور تو اور رکشے والے بھی انہیں کسی لائق نہیں گردانتے اور ون وے پر بھی جدھر دل چاہے ڈرائیو کر لیتے ہیں۔
دو لین کی سڑکوں پر دکان داروں کی کارز، موٹر بائیکس، ہاسپٹلزمیں آنے والے مریضوں کی گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں اور چار گاڑیوں کی لائن میں رکشے اور بائیکس اس طرح چلتی ہیں جیسے سڑک صرف ان کے لیے بنی ہو نتیجتا روڈ بلاک ہو جاتی ہے۔اس صورت میں پریشانی کی کوئی بات نہیں فٹ پاتھ پر بائیکس اور رکشے بڑے آرام سے چلتے ہیں اور کبھی کبھار کوئی چھوٹی کار بھی یہ ایڈونچر کر لیتی ہے۔
ہم ٹھہرے ذرا مہذب شہر کے پروردہ جو پنڈی اسلام آباد میں بڑے آرام سے ڈرائیو کر لیتے تھے لیکن یہاں تو میاں کے ساتھ پیسنجر سیٹ پر بیٹھ کے بھی ہولتے رہتے ہیں کہ ابھی رکشہ، بائیک یا کسی کار کی ٹکر سے اللہ کو پیارے ہو جائیں گے۔ یہ تو ہو گئی ٹریفک کی کارگزاری اب ذرا پیدل چلنے والوں کی داستان بھی سن لیجئے۔
میرے بیٹے کا اسکول گھر کے سامنے سڑک کے پار تھا چنانچہ جب کبھی میاں صاحب کو آفس میں کام ہوتا تومیں اسے اسکول چھوڑ دیتی تھی یا اسکول سے لے لیتی تھی۔پنڈی اسلام آباد میں تو ٹریفک لائٹس کی وجہ سے ہم بڑے مزے سے سڑک پار کر لیتے ہیں ۔یہاں جب پہلی بار سڑک پار کرنے کی کوشش کی تو خاصی دیر انتظار کیا کہ شاید کوئی بندہ خدا خاتون اور اسکول یونیفارم میں بچے کو دیکھ کر رک جائے لیکن جب ایسے کوئی آثار نظر نہیں آئے تو بے خطر کود پڑے آتش نمرود میں ہم۔
بیٹے کا ہاتھ پکڑا اور گاڑیوں کے اژدہام میں اپنا رستہ بنانے کی کوشش کی تو انکشاف ہوا کہ سب اندھے ڈرائیورز ہیں حرام ہے جو کسی نے بھی گاڑی ، بائیک، رکشہ ، بس کی بریک پر پاوں رکھا ہو یا رفتار آہستہ کرنے کی زحمت کی ہو۔ایک دو بار تو ذرا دشواری ہوئی پھر ہم نے بھی یہ موت کے کنوئیں کا کھیل سیکھ ہی لیا اور چلتی ٹریفک میں سے زگ زیگ کر کے بڑی مہارت سے سڑک پار کر لیتے ہیں۔
میرے خیال میں تو جو شخص کوئٹہ میں گاڑی چلا سکتا ہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں بناء کسی ٹیسٹ کے لائسنس کا حق دار ٹھہرتا ہے کیونکہ یہاں گاڑی چلانا واقعی ہی موت کے کنوئیں میں کار چلانے کے مترادف ہے کیونکہ این سی پی گاڑیاں بکثرت ہیں جو کہ بڑی اور سستی ہیں کسی کی گاڑی ٹھک بھی جائے تو پرواہ نہیں یا پھر لوگ اس قدر امیر ہیں کہ نئی گاڑی خریدنا ان کے لیے مسئلہ ہی نہیں لہذا جیسے چاہیں ڈرائیو کرتے ہیں۔ یہاں چھ سات سال کا بچہ بائیک اور رکشہ چلا رہا ہوتا ہے اور شاید بڑوں کے پاس بھی لائسنس کم ہی ہوتا ہے۔
اس لاپرواہی کی ایک مثال کی تو ساری دنیا گواہ ہے جب ایک منسٹر صاحب نے دن دہاڑے نشے میں دھت ہو کر بیچارے ٹریفک وارڈن پر گاڑی چڑھا دی اور اس کے بعد اس قتل کے الزام سے ایسے بچ نکلے جیسے مکھن میں سے بال نکلتا ہے۔یہ پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ بھرے بازار میں اکثر ٹریفک پولیس، ایف سی اور پولیس اسٹیشن پر فائرنگ، بم دھماکے بھی روزمرہ کا معمول ہیں۔
رہ گئی بات روڈ سیفٹی ویک کے تحت فرسٹ ایڈ دینے کی تو چاہے کوئٹہ ہو یا پاکستان کا کوئی اور شہر اب تو لوگ حادثے کی صورت میں 1122 پر کال کرنے کی بجائے فورا موبائل نکال کر ویڈیو بنانے لگتے ہیں تاکہ سوشل میڈیا پر ڈال کر زیادہ سے زیادہ لائیکس حاصل کر سکیں۔تو جناب جیسے پاکستان کے دوسرے ڈیپارٹمنٹس میں سدھار مشکل ہے ویسے ہیں ٹریفک ڈیپارٹمنٹ میں کسی اچھائی کی امید کم ہی ہے خواہ وہ موٹر وے پولیس ہو یا عام پولیس سب گول مال ہیں۔