سوات سکول فائرنگ کیس میں نئے انکشافات، ملزم نے پہلے والد پر بھی فائرنگ کی تھی
رفیع اللہ خان
سوات میں گزشتہ روز پولیس اہلکار کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والی پانچ سالہ طالبہ عائشہ کو سپرد خاک کردیا گیا۔ نماز جناز جنازہ میں پولیس کے اعلی افسران سمیت لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
یاد رہے 1965 میں قائم ہونے والے سوات کے پہلے اور واحد میشنری سکول سنگوٹہ پبلک سکول میں گزشتہ روز ڈیوٹی پر مامور پولیس اہلکار محمد عالم کی فائرنگ سے ایک طالبہ جاں بحق جبکہ 6 زخمی ہوگئی تھی۔ پولیس اہلکار کی فائرنگ سے زخمی ہونے والی روما حسین، ناہید، اریشہ، حورین وجیہہ، عیشال اور حریم تاحال سیدو شریف ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
گرفتار پولیس اہلکار کے حوالے سے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سوات شفیع اللہ گنڈاپور کا کہنا ہے کہ واقعے کے فورا بعد ملزم کو اسلحہ سمیت گرفتار کرلیا گیا ہے جس سے تفتیش کی جا ری ہے ، پولیس اہلکار قاتل ہے جس کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکار سے غلطی سے گولی چلی ہے جبکہ دوسری جانب یہ بھی اطلاعات موصول ہو رہی ہے کہ پولیس اہلکار ذہنی مریض تھا۔
بتایا گیا ہے کہ مذکورہ پولیس اہلکار 2007 میں سپیشل پولیس فورس میں بھرتی ہوا تھا جس کو بعد میں ریگولر کردیاگیا تاہم انہوں نے نامعلوم وجوہات کی بناء پر اپنے والد پر بھی فائرنگ کی تھی۔
پولیس زرائع کا کہنا ہے کہ ملزم کو ایک دفعہ پولیس فورس سے برخاست بھی کیا گیا تھا تاہم بعد میں انکو بحال کیا گیا۔
ملزم کے گھر والوں کے مطابق وہ ذہنی مریض ہے انہوں نے گذشتہ ایک ماہ سے علاج ترک کیا تھا لہذا اس واقعے کو مذہبی منافرت یا اور رنگ نہ دیا جائے۔
سوات میں مذہبی ہم آہنگی اور معاشرے میں عدم برداشت پر کام کرنے والے سوشل ایکٹیوسٹ شمشیر خان نے ٹی این این کو بتایا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آیا یہ واقعہ مذہبی منافرت کی بنیاد پر پیش آیا ہے کیونکہ ابھی تک ایسے کوئی شواہد یا ملزم کا اعترافی بیان سامنے نہیں آیا ہے جس کی بنیاد پر یہ رائے قائم کی جاسکے تاہم ملک میں کمر توڑ مہنگائی اور بد امنی کے باعث لوگ عدم برداشت کا شکار ضرور ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ بحیثیت قوم ہم سب کو فلاحی معاشرے کی تکمیل کے لئے آگے بڑھنا ہوگا تاکہ مستقبل میں ایسے ناخوشگوار واقعات رونما نہ ہو سکے۔
سوات پولیس کے ترجمان ناصر نے ٹی این این کو بتایا کہ ملزم کو آج عدالت میں پیش کیا گیا جس کی کسٹڈی لی ہے اور آج ان کو تفتیشی آفسران کے حوالے کیا جائے گا جن سے مزید تفتیش کی جائے گی۔انہوں نے بتایا کہ ان کا ذہنی چیک اپ بھی کیا گیا ہے جن کی رپورٹ آنے کے بعد میڈیا کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔
چارباغ کے رہائشی عطاء اللہ نے بتایا کہ واقعہ بظاہر مذہبی منافرت یا دہشت گردی کا نہیں لگتا لیکن تحقیقات بہت ضروری ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہو ۔
مینگورہ شہر کے رہائشی نور رحمان کا کہنا ہے کہ سکول بچوں کے لئے محفوظ جگہ تصور کی جاتی ہے لیکن جب محافظ خود ہی قاتل بن جائے تو ایسے میں ریاست ہی ذمہ دار ہوگی اور لوگوں کا ریاستی اداروں پر یقین ختم ہوجاتا ہے۔
سوات کے تحصیل چارباغ میں آج دو بجے اس واقعے کے خلاف متوڑیزی قومی جرگہ کے زیر اہتمام احتجاجی مظاہرہ بھی ہوگا جس میں تمام مکاتب فکر کے لوگ شریک ہونگے۔
اس کے علاوہ سوات بار ایسوسی ایشن نے آج احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے عدالتوں میں پیش نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
سوات میں اس واقعے پر لوگوں میں غم و غصہ کی لہر پائی جا رہی ہیں اور لوگ تشویش کا اظہار کررہے ہیں ۔
سوشل میڈیا پر بھی لوگ اس حوالے سے رائے کا اظہار کررہے ہیں۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ سوات میں ہونے والے واقعات کو حادثات کا رنگ دیا جارہا ہے اس سے پہلے کبل میں سی ٹی ڈی تھانے پر ہونے والے دھماکے کو حادثہ قرار دیاگیا تھا اور تھانے کے بیسمنٹ میں رکھے گئے بارودی مواد کو دھماکہ قرار دیاگیا تھا اور اب اس واقعے میں بھی پولیس کی ذہنی توازن ٹھیک نہ ہونے کو جواز بنایا جارہا ہے۔ اب پولیس تحقیقات مکمل ہونے اور ملزم کی مینٹل ایگزامینیشن کے بعد ہی اصل حقائق سامنے آئیں گے۔