عوام کی آوازکالم

‘مولانا کا ایک اور بے سود دھرنا’

ابراہیم خان

صوبہ سرحد سے خیبر پختونخوا کا سفر طے کرنے والے صوبے کے سابق وزیر اعلی مولانا مفتی محمود مرحوم کے فرزند مولانا فضل الرحمن کو باقاعدہ سیاست میں آنے کا موقع مولانا مفتی محمود کی وفات کے بعد ملا کیونکہ مفتی محمود نے مولانا کی اپنی زندگی کے دوران سیاست میں آنے کی زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کی تھی۔

اس حوالے سے بہت سے دلچسپ واقعات بھی ہیں جن سے کچھ اندازہ ہوتا ہے کہ مفتی محمود اپنے فرزند کی میدان سیاست میں زیادہ حوصلہ افزائی کیوں نہیں کرتے تھے۔ ان واقعات کو پھر کسی وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔

مفتی محمود کی وفات کے بعد 1980ء میں مولانا فضل الرحمٰن 27 سال کی عمر میں جمیعت علمائے اسلام کے سیکرٹری جنرل بنے۔ مولانا فضل الرحمن نے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا تو جے یوآئی ملک میں متحد تھی، گویا ایک ہی جماعت تھی۔ جمعیت علمائے اسلام مفتی محمود کی رحلت کے بعد زیادہ دیر تک اکٹھی نہ رہ سکی۔ 80 کی دہائی کے وسط میں جے یو آئی تقسیم ہوگئی اور مولانا نے اس تقسیم پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے لاحقے کے ساتھ اپنا علیحدہ دھڑا بنالیا۔ یہی سے” ہونہاربھروا” کے چکنے چکنے پات کا اندازہ ہوگیا تھا۔ مولانا سیاست میں اپنا راستہ نکالنے کے قائل ہیں انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر میں نہ رکنا سیکھا اور نہ کبھی بے لچک ہوئے، سیاست میں مراعات ان پر مہربان رہیں اور اگر ایسا نہ ہو رہا ہو تو وہ اس فن سے آشنا ہیں کہ مراعات کو کیسے حاصل کیا جاتا ہیں؟

مولانا فضل الرحمن کے اس فن سے آشنائی کی ایک مثال عورت کی حکمرانی کے بارے میں ان کے فرمودات ہیں۔ عورت کی حکمرانی کے بارے میں تمام مکاتب فکر کے جمہور علماء ایک طرف ہیں کہ قرآن و سنت کے صریح احکام اور امت مسلمہ کے چودہ سو سالہ تواتر عملی کے باعث کسی مسلمان ملک پر عورت کے حکمران بننے کا شرعاً کوئی جواز نہیں ہے جبکہ جے یو آئی نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے صدارتی انتخابات کے موقع پر عورت کی حکمرانی کو ناجائز قرار دے کرمذہبی کارڈ سے ان کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن جب 1988ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کا معاملہ آیا تو تب مولانا فضل الرحمن کو نوازشریف سے مخاصمت کی وجہ سے عورت کی حکمرانی میں کوئی حرج دکھائی نہیں دیا۔

یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان کا موقف اور رویہ ملک کے دینی حلقوں کے لئے معمہ بنا ہوا ہے۔ مولانا موصوف عورت کی حکمرانی شرعاً جائز نہ ہونے کے بارے میں علماء کے متفقہ فتویٰ سے اختلاف کی ہمت تو نہیں کر پاتے، انہیں یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ علماء کا فتویٰ درست ہے لیکن اس کے ساتھ ہی انہیں اس فتویٰ کی اہمیت اور وزن کو کم کرنے کا فکر بھی لاحق تھی اس لئے انہوں نے یہ موقف اپنایا کہ عورت کی حکمرانی کے خلاف علماء کا فتویٰ درست ہے لیکن اس میں عوامی کشش نہیں ہے۔ مولانا یہ خود ساختہ استدلال ان علماء کے فتوے کے جواب میں کہے جن کی علمیت سکہ بند ہے تاہم اس کے باوجود عوامی کشش درمیان میں لے آئے۔ مولانا موصوف بخوبی یہ سمجھتے ہیں کہ کسی فتویٰ کے درست ہونے کے بعد اس کے لئے عوامی کشش کی سند درکار نہیں ہوتی اور اس قسم کی شرط لگانا فتویٰ کے شرعی تقاضوں کی نفی کے مترادف ہے۔

یاد رہے کہ مادر ملت کے انتخابی معرکے کے موقع پر متحدہ علماء کنونشن راولپنڈی میں شریک ہونے والے دو ہزار سے زائد علماء نے عورت کی حکمرانی کو ناجائز قرار دیا تھا اور مولانا فضل الرحمن کا المیہ یہ ہے کہ ان دو ہزار علماء میں سے ایسے بیس افراد کی نشاندہی بھی نہیں کرسکتے کہ جن پر وہ محترمہ فاطمہ جناح کی (صدارتی مہم کی) حمایت کا الزام ثابت کر سکیں۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنا موقف اپنا کر بے نظیر حکومت اور پھر اس کے 18 برس تک کشمیر کمیٹی کا فیض حاصل کیا۔ ان کے بارے یہ بھی کہا جانے لگا ہے کہ وہ "فیض ” کے حصول میں ماہر ہیں۔

مولانا فضل الرحمن کا سیاسی کیریئر اسی مہارت کے قصوں سے بھرا پڑا جن میں تو بیشتر کو ضبط تحریر میں بھی نہیں لایا جاسکتا۔ مولانا کے عہد حاضر کے کی سیاسی حکمت عملی بھی انوکھی ہے۔ ان کے قریبی حلقوں سے ملنے والے "گیان” کا نچوڑ یہ کہ حکومت کے خلاف اپوزیشن میں بیٹھنے کے بجائے حکومت کا حصہ بنو مگر اپنا موقف بیان کرو بھلے وہ حکومتی جماعت کے موقف سے مختلف ہی کیوں نہ ہو۔ ان کا مبینہ استدلال ہے کہ اس قسم کے اختلاف کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی یہ حکمت عملی بہت فائدہ مند ہے جس کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ حکومت کے اندر رہتے ہوئے حکومتی فضائل بھی حاصل کئے جائیں اور جب ضرورت پڑے تو ایک محدود پیمانے پر زبانی کلامی اپوزیشن کرکے خاموشی اپنا لی جائے۔ مولانا فضل الرحمن کا یہ فارمولا پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ استوار نہیں ہو سکا جس سے ان کی تحریک انصاف سے ناپسندیدگی عیاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2018 کے عام انتخابات کا نتیجہ سامنے آیا تو مولانا فضل الرحمن نے حکومت سازی کے چند روز کے دوران خاموشی سے انتظار کیا۔ وہ اس دوران یہ دیکھنا چاہ رہے تھے کہ کہیں اگر تحریک انصاف کے علاوہ باقی جماعتیں مل کر کوئی اتحادی حکومت بنا سکے تو وہ بھی اس حکومت میں شامل ہو کر اپنی کامیاب "سیاست” کو رواں دواں رکھیں گے لیکن ایسا نہ ہوا۔ مولانا فضل الرحمن نے جب دیکھا کہ خاص طور پر میاں نواز شریف حکومت بنانے میں دلچسپی نہیں لے رہے تو پھر انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے انتخابی نتائج پر اپنی ناراضگی زیادہ شدومد سے ظاہر کرنا شروع کر دی۔ انتخابی نتائج پر ان کے عدم اطمینان کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابھی حکومت سازی کا عمل جاری تھا کہ مولانا نے مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر جماعتوں سے یہ مطالبہ شروع کر دیا کہ وہ اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو جائیں۔

مولانا فضل الرحمان نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا دورانیہ بہت مشکل سے گزارا اور وہ ان ہاؤس تبدیلی پر بہت خوش تھے کیونکہ ان کی جماعت کو اہم وزارتیں ملیں جن سے وہ مستفید ہو رہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے سے قبل اپوزیشن جماعتوں نے مل کر پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کے نام سے اتحاد قائم کیا جن میں مولانا کو پاکستان تحریک انصاف سے مخاصمت صحت اور پیرانہ سالی کی وجہ سے انہیں اس اتحاد کا سربراہ بنا دیا گیا۔

پی ڈی ایم کا سربراہ بننے کے بعد مولانا فضل الرحمن نے اپنا سیاسی انداز حسب سابق جاری رکھا ہوا ہے۔ اس اتحاد سے اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نکل گئے تھے اس لئے وہ ابھی تک دوبارہ اس اتحاد کا باضابطہ حصہ نہیں بنے لیکن یہ دونوں جماعتیں حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔ گویا صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں والا معاملہ ہے۔ مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم میں بھی اپنی سیاست کر تے ہوئے عدالت عظمیٰ کے خلاف تاریخی دھرنا دے رہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے کر رہا کرنے کے حکم کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی کال پر اسلام آباد میں دھرنا شروع ہوچکا ہے۔

سیاسی مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس دھرنے سے سپریم کورٹ پر تو کوئی اثر نہیں ہوگا جبکہ سیاسی طور پر بھی اس سے کسی جماعت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا بلکہ اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ الٹا مسلم لیگ (ن) کو اس کا سیاسی نقصان ہو سکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو اس معاملے میں یہ نقصان اس وجہ سے زیادہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے سمجھ داری کا ثبوت دیتے ہوئے عدلیہ جیسے ادارے کے خلاف دھرنے میں شمولیت سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمن نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کی دختر نیک مریم صفدر کو اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے جس کی وجہ سے پارٹی کے اندر وہ گروپ جو نواز شریف اور ان کی برخورداری کے زیادہ زیر اثر ہے وہ اس دھرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے خلاف اب یہ دھرنا کہنے کو تو پی ڈی ایم کا ہے لیکن عملی طور پر مسلم لیگ (ن) کا ایک دھڑا اور مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی اس دھرنے کی کرتا دھرتا ہے۔ جعمیت علمائے اسلام (ف) کے قافلے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوگئے ہیں۔ مریم صفدر کی اس دھرنے میں غیر معمولی دلچسپی کی وجہ سے اسلام آباد میں نافذ دفعہ 144 جو تحریک انصاف کے کارکنوں کو اکٹھا ہونے سے روکنے کے لئے لگائی گئی تھی وہ بھی ہوا میں تحلیل ہو جائے گی۔

یہ دھرنا کتنے دورانیہ کا ہوتا ہے؟ اس بحث سے قطع نظر اس کا اگر کوئی تھوڑا بہت سیاسی فائدہ ملنے کی امید ہے تو وہ مولانا فضل الرحمن کو ذاتی طور ان کی انا کی تسکین ہوگی۔ سیاسی طور پر اگر کوئی فائدہ ہو سکتا ہے تو وہ یہ ممکن ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے پاکستان تحریک انصاف کے دور میں جو دھرنا دیا تھا اور اس دھرنے کو اٹھانے کے لئے جن قوتوں نے انہیں یقین دہانیاں کرائی تھیں شائد وہ یقین دہانیاں دوبارہ مل جائیں۔

لیکن سوال یہ ہے کیا یہ یقین دہانیاں مولانا کے لیے کوئی تبدیلی لا سکتی ہیں؟ تو اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ اس اعتبار سے یہ پیش بینی کی جاسکتی ہے کہ یہ دھرنا نشستن گفتن اور برخاستن کے علاوہ کوئی اورنتیجہ نہیں لا سکتا۔ اس دھرنے سے سیاسی جماعتوں تو کو فائدہ تو نہیں البتہ ان کی ساکھ کو نقصان ضرور پہنچ سکتا ہے اس لئے ذی ہوش طبقے کی کوشش ہوگی کہ اس دھرنے کو جس قدر جلدی ہو ختم کردیا جائے یہی دانش مندی ہوگی۔

نوٹ: ادارے کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا لازمی نہیں۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button