لیول پلیئنگ فیلڈ کے حصول کا فاتحانہ آغاز
ابراہیم خان
دنیا کے مہذب ممالک کی ڈکشنریوں میں ریاست کا مطلب ماں جیسا شفیق کردار ہے جو اپنے بچوں کو ہمیشہ جوڑ کر رکھتی ہے۔ ان بچوں میں فرمانبردار اور ضدی بچے شامل ہوتے ہیں، عام زبان میں اچھے اور برے دونوں مزاج کے بچے ہوتے ہیں جن سے ماں ہرگز مقابلہ نہیں کرتی بلکہ انہیں اس طرح کار آمد بناتی ہے کہ ہر بچہ اپنی توانائیاں گھر کے استحکام کے لیے استعمال کرے۔
ریاست کی بیرونی دنیا میں اس تعریف کے برعکس بدقسمتی سے پاکستان کی ڈکشنری میں ریاست سے مراد ایک ادارہ بنا دیا گیا ہے۔ ادارے ریاست کا ایک جز تو ہوسکتے ہیں لیکن بذات خود نہ ریاست بن سکتے ہیں اور نہ ان میں اس بات کی سکت ہوتی ہے۔ ایسی ریاست میں پھر ایسا ہی ہوتا ہے جو اسلام آباد کی عدالت عالیہ کے احاطے کے اندر ہوا۔ جہاں ایک ملزم (عمران خان) اپنی ضمانت کے حصول کے لیے اپنے وکیل کے ساتھ بائیو میٹرک کروارہا تھا کہ اس دوران انصاف کے اس گھر میں رینجرز کی وردی میں ملبوس "جوان” اس کمرے میں داخل ہونا چاہتے تھے جہاں ملزم عمران خان موجود تھے۔
عدالتی عملے نے اجازت نہ دی تو شیشے کی کھڑکی توڑ کو مسلح رینجرز اندر داخل ہوئے اور ملزم، جو اسی ریاست کا سابق وزیراعظم عمران خان تھا، کو وہیل چیئر سے اٹھا کر بکتر بند گاڑی میں بٹھا کر یوں لے اڑے جیسے ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں فوج کسی ”اتنگ وادی” کو اٹھاتی ہے۔ ہندوستانی فوج کا یہ مزاج بن چکا ہے کہ اسے اس طرح کا آپریشن کرکے اعلیٰ حکام کو”مشن اکامپلشڈ” کا پیغام پہنچانے کی بہت جلدی ہوتی ہے۔ ایسا ہی کچھ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوا۔
رینجرز نے یکم مئی کو یوم مزدور پر جاری ہونے والے نیب وارنٹ کی تکمیل نو روز بعد کرتے ہوئے گویا پاکستان تحریک انصاف کے بڑے قلعے کو فتح کرلیا تاہم اس وارنٹ میں قانونی سقم بھی بہت تھے جو عدالت میں سامنے آجائیں گے لیکن ان خامیوں کے باوجود اسلام آباد میں مشن پورا ہوا تو تحریک انصاف کے کارکنوں کی خود ساختہ ریڈلائن ہوا میں اڑ چکی تھی۔ دنیا بھر کے میڈیا میں عمران خان کی گرفتاری کے مناظر عام ہوگئے، اس ریڈ لائن کے عبور ہوتے ہی ردعمل بھی عمران خان کی گرفتاری کی طرح انہونا تھا۔ مظاہرین میں بعض ایسے "جی دار” نکل آئے جنہوں نے جی ایچ کیو اور کورکمانڈر لاہور کے گھر کا رخ کرلیا ۔یہ جرات بذات خود ایک انہونی جرات تھی جس کو روایت کے مطابق تو بری طرح ناکام ہونا چاہیے تھا لیکن یہاں بھی انہونی ہو گئی اور وہ مقامات جہاں چڑیا بھی پر نہیں مارسکتی وہاں تحریک انصاف کے "بلوائی”بڑی آسانی سے داخل ہوگئے اور دھینگا مشتی کرکے چلتے بنے۔ اس ڈرامے میں اگر کوئی کمی تھی تو وہ اتنی ہی تھی کہ کورکمانڈر کے گھر کے باہر ان بلوائیوں کا کوئی "سواگت” کرلیتا تو زیادہ اچھا ہوجاتا۔
ملک بھر کے آزاد تجزیہ کار یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر یہ بپھرے کارکن ان انتہائی حساس مقامات تک کیسے پہنچے؟ بظاہر دبلے پتلے یہ نوجوان اس قدر طاقتور نکلے کہ ان کے سامنے کسی نے مزاحمت تک نہ کی۔ سونے پر سوہاگہ یہ کہ ان حملہ آوروں کی ذہنی میچورٹی کا عالم یہ تھا کہ حملہ آوروں میں سے ایک نے کورکمانڈر لاہور کے گھر سے مور اٹھا کر لے آیا ۔اس نوجوان نے جس طرح مور کو اٹھالانے کے اقدام کا استدلال پیش کیا اسے سن کر زیادہ دکھ ہوا۔عقل دنگ ہے کہ یہ بلوائی ان عمارتوں میں کیسے داخل ہوگئے۔
ان حساس عمارتوں کے 1975 اور 1983 میں بڑے بڑے جری جوان نزدیک تک نہیں پھٹک سکے۔ یہ منظرنامہ اس اعتبار سے واقعی حیران کن تھا لیکن اس منظرنامے کا تھوڑا بہت پس منظر اس وقت ظاہر ہوگیا جب نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے اس عمل کو ریاست کے خلاف دہشتگردی گردان دیا۔ یہ وہی وزیر اعلی ہیں جو اس وقت آئی جی پنجاب سمیت بغرض عمرہ مدینہ منورہ روانہ ہوگئے تھے جو پاکستان تحریک انصاف کے صدر چوہدری پرویز الٰہی کے گھر پر اس رات کو پولیس آپریشن کیا گیا جب سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کامیابی کے قریب پہنچ چکے تھے۔
محسن نقوی کے اس عزم کی تکرار مسلسل جاری ہے۔ اس تکرار سے اگلے متوقع ایکشن کا بھی اندازہ ہوگیا ہے جبکہ اس اندازے کے تحت پاکستان تحریک انصاف کے سر پر دہشت گردی اور وہ بھی ریاستی احاطوں میں کرنے پر پابندی کی تلوار لٹکتے دکھائی دے رہی ہے۔ اب تحریک انصاف کی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ ان متوقع حالات سے اپنے آپ کو کس طرح بچاتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری اگر دیکھی جائے تو عدالت عالیہ اسلام آباد کی بھی رسوائی کا ذریعہ ہے۔ یہ گرفتاری ایک ایسے سائل کی گرفتاری ہے جو ضمانت کی درخواست لے کر عدالت کے در پر آیا تھا۔ اس سائل کے کیس کی شنوائی سے پہلے ہی اسے اٹھا لیا گیا ۔اس واقعے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ایکشن لینا چاہیے تھا کہ اس قسم کی غیر قانونی کارروائی کیوں کی گئی؟ ہائیکورٹ نے ایکشن بھی لیا لیکن سماعت مکمل کرنے کے بعد ایک ایسا پھس پھسا فیصلہ جاری کیا جو خود فیصلے کے تضاد کا حال بتا رہا ہے۔ اس فیصلے میں عمران خان کی گرفتاری کو تو قانونی قرار دے دیا گیا لیکن گرفتاری کے اس طرز عمل کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے متعلقہ افسران کو توہین عدالت کے نوٹس ظاہر کردئے۔ یہ محفوظ فیصلہ کئی گھنٹے محفوظ رکھنے کے بعد سنایا گیا۔
فیصلے کے محفوظ ہونے کی طوالت کا دورانیہ جوں جوں بڑھ رہا تھا توں توں اسی قسم کے فیصلے کے امکانات بھی بڑھ رہے تھے۔ اس لئے فیصلے میں گرفتاری کے قانونی ہونے کو جان کر حیرت نہیں ہوئی البتہ فیصلے کا تضاد خود اس کا تمسخر اڑا رہا ہے۔
عمران خان کو بدھ کے روز عدالت میں پیش کردیا گیا جہاں انہوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ ان کو مقصود چپڑاسی کی طرح انجکشن لگا کر قتل کیا جاسکتا ہے۔ احتساب عدالت نے سماعت مکمل کرکے ریمانڈ کی بابت فیصلہ محفوظ کرلیا۔ غالب امکان یہ ہے کہ عدالت ریمانڈ دیدے گی۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کے کارکنوں نے احتجاج میں تشدد کو بھی بھرپور طریقے سے شامل کر لیا ہے جس کی وجہ سے صوبہ پنجاب میں حالات پر قابو پانے کیلئے وفاقی حکومت نے فوج تعینات کردی ہے جبکہ خیبر پختونخوا کی انتظامیہ نے بھی فوج کی تعیناتی کی درخواست وفاق سے کردیی جس کی منظوری کے بعد دو صوبوں کو فوج کے حوالے کر دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ یہ فوج صوبہ پنجاب میں انتخابات کی سیکیورٹی کیلئے میسر نہ تھی۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کو 3 ایم پی او کے تحت گرفتار کیا جائے گا۔ ان اسیروں کے خلاف دہشتگردی کے قانون کے تحت مقدمات قائم کئے جائیں گے۔ یوں پاکستان تحریک انصاف کو کالعدم قرار دینے کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ اب امکان یہ ہے کہ تحریک انصاف پر پابندی لگ سکتی ہے۔ اگر تحریک انصاف کو کالعدم قرار دے دیا گیا تو نون لیگ کی سب سے بڑی لیول پلیئنگ فیلڈ کی فرمائش پوری ہوجائے گی۔ اس فرمائش کی تکمیل میں سردست تحریک انصاف کی سپریم کورٹ میں اپیلوں پر فیصلہ حائل ہوسکتا ہے۔