مردان میں تعینات ہونے والی پہلی خاتون پولیس افسر خواتین کے مسائل کے لیے کونسے اقدامات کررہی ہیں؟
عبدالستار
مردان پولیس میں پہلی دفعہ تعینات ہونے والی خاتون پولیس افیسر ریشم جہانگیر کہتی ہے کہ محکمہ پولیس میں بحثیت آفیسر آنے سے خواتین کو اپنے شکایات درج کرنے اور مسائل بتانے میں آسانی آئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مقابلے کے امتحان میں کامیابی کے بعد یہ انکی پہلی تعیناتی ہے جبکہ مردان پولیس کی تاریخ میں بھی ایک خاتون پولیس آفیسر کی بھی پہلی تعیناتی ہے۔
خاتون اے ایس پی ریشم جہانگیر نے بتایا کہ ان کا تعلق صوبہ پنجاب کے علاقہ گجرانوالہ سے ہے اوروہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہے۔ انہوں نے کہاکہ تعلیم سے لیکر سی ایس ایس میں کامیابی تک باپ کے تعاون کی وجہ سے یہ ممکن ہوا اور آج وہ جو کچھ بھی ہے ان سب کے پیچھے انکے بابا کی ناقابل بیان کاوشیں ہیں۔
اے ایس پی ریشم جہانگیر نے کہا کہ انہوں نے پولیس سرکل شیخ ملتون میں خواتین ڈسک بنادیا ہے جبکہ ضلعی پولیس آفیسر سے اجازت لے کر پورے ضلع میں تمام پولیس سرکل میں خواتین ڈسک فعال بنایا گیاہے جس میں لیڈی کانسٹیبل موجود ہوتی ہیں اوراب خواتین بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنے مسائل خواتین کانسٹیبلان کو بتا سکتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بحثیت خاتون پولیس آفیسر انکو خواتین کے مسائل کا بخوبی ادراک ہے جس کے لئے وہ باقاعدہ اپنے تھانہ جات میں محرر سٹاف کے لئے ہر مہینے ایک مختصر ورکشاپس کا انعقاد کرتی ہیں جبکہ پولیس تھانوں میں تعینات سٹاف کو خواتین کے ساتھ برتاو کے حوالے سے تربیت بھی دی جا چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ شکایت کنندہ خواتین سے پوچھتی ہیں کہ تھانے میں اس کیساتھ عملہ کس طرح پیش آیا تھانے آئی ہوئی خاتون مطمئن نہ ہونے کی صورت میں اپنے سٹاف میں خواتین کے ساتھ روئیے کی مزید بہتری کی کوشش کرتی ہیں۔
ریشم جہانگیر نے کہا کہ خواتین اب مجھے آفس میں دیکھ کر کھل کر بات کرتی ہیں اور خواتین شکایت کندگان کی شرح بھی بڑھ گئی ہے اوراب وہ اپنے مسائل اور شکایات بغیر ججھک کے درج کرتی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ خواتین کو ناانصافی سے بچانے اور معاشرتی مسائل میں ان کی مدد کرنے کے لیے کھلی کچہری میں اور سوشل میڈیا پر پیغامات جاری کئے ہیں تاکہ خواتین کو آگاہی مل سکے۔
اے ایس پی ریشم جہانگیر نے کہا کہ اب ضلع کے ہر تھانے میں لیڈی کانسٹیبل موجود ہوتی ہے اور جب کوئی خاتون شکایت درج کرنے آتی ہے تو ایس ایچ او کے ساتھئ شکایت درج کرتے وقت لیڈی کانسٹیبل بھی موجود ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ متاثرہ خواتین کی نفسیاتی مدد کے ساتھ ساتھ انکو قانونی مدد بھی فراہم کرتی ہیں۔
عید کے شاپنگ کے دوران خواتین کو ہراسمنٹ سے بچانے کے لیے کیا پلان بنایا گیا تھا؟
خاتون پولیس آفیسرریشم نے کہا کہ مجھے کچھ شکایات ملی تھی کہ رمضان میں افطار کے بعد جو خواتین واک کے لئے نکلتی ہیں تو اوباش لڑکے ان کو تنگ کرتے ہیں جس پر فوری کاروائی کی اور اب شکایات نہیں آرہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ رمضان کے آخری عشرے میں خواتین کی عید کی شاپنگ کرتی ہے اور بازاروں میں رش کافی بڑھ جاتاہے مختلف بازاروں جہاں پر خواتین شاپنگ کرتی ہیں وہاں پر لیڈی پولیس کو سادہ کپڑوں میں اور یونیفارم میں تعینات کیا گیا تھا تاکہ بروقت خواتین کی مدد کی جاسکے۔
انہوں نے کہاکہ خواتین کے ساتھ ہراسمنٹ کی شکایت کے لئے کمپلینٹ سیل کے نمبرز بھی سوشل میڈیا اور بینرز کے زریعے شیئر کئے گئے ہیں۔
اے ایس پی ریشم نے بتایا کہ انہوں نے اپناآفیشل موبائل نمبرز بھی خصوصی طور پر خواتین کے لئے جاری کیا ہے تاکہ وہ ہراسمنٹ کی شکایت کے لئے اسی نمبر پر میسج یا کال کرے تاکہ جو خواتین جو کلچر یا باقی کسی وجہ سے تھانہ آنے سے ہچکچاہت محسوس کررہی ہو تو ان کو سہولت مل سکے اور وہ اپنا مسئلہ بھی شیئر کرسکے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ میسج یا کال خود دیکھتی ہے تاکہ متاثرہ خاتون کوفوری ریلیف مل سکے۔۔
انہون نے کہاکہ خیبرپختوںخوا کے ضلع مردان میں پانچ ماہ ہوئے لیکن یہاں کے مردحضرات کومحسوس نہیں ہونے دیا کہ ایک خاتون ان سے بات کررہی ہیں اور نہ ہی انکو ابھی تک کوئی شکایت موصول ہوئی ہے تاہم وہ علاقے کی کلچر اور اقدار کا خیال رکھ کر ڈیوٹی سرانجام دیتی ہیں۔