‘یہ کیمرے والے مزدور، اپنے ساتھ ہونے والے معاشی ‘بلاد کار’ کو سامنے نہیں لاسکتے’
ابراہیم خان
ہر سال مئی کا مہینہ طلوع ہوتے ہی ایسی بہت سی آوازیں سننے کو ملیں گی جو بے چارے مزدور کی حالت زار بتاتے بتاتے یوں جاں بلب ہو رہی ہوتی ہیں کہ جیسے وہ واقعی مزدوروں کی حالت زار پر دل گرفتہ ہیں اور ان کو راحت پہنچائے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ مزدور جو اب صرف دو وقت کی روٹی کے حصول میں مارا مارا پھرتا ہے اسے اپنے ان بہی خواہوں اور ان کے جذبات کا پتہ تک نہیں چلتا کہ کون کون اس کی محبت میں تڑپ رہا ہے۔
مزدوروں کے یہ خیرخواہ مئی کے مہینے کی پہلی تاریخ کو اس لئے گرجتے برستے ہیں کہ یکم مئی کو عالمی یوم مزدور دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ یہ دن 124 سال قبل شکاگو کے ان مزدوروں کی بینظیر قربانی کی یاد میں منایا جاتا ہے جب ہزاروں مزدوروں نے جان کی قربانیاں دے کر نہ صرف اپنے وقت بلکہ آنے والے وقتوں کے لئے بھی یہ منوالیا کہ مزدور ایک مخصوص وقت کے دورانئے میں کام کریں گے۔ شکاگو کے مزدوروں کی اس قربانی دینے سے قبل مزدور کے کام کرنے کے کوئی اوقات متعین نہیں تھے ان سے لمبی لمبی ڈیوٹیاں کی جاتی تھیں۔
شکاگو کے مزدوروں نے اپنا خون دے کر یہ حق حاصل کر لیا جس کے بعد مہذب دنیا میں مزدوروں کے باقاعدہ اوقات کار بن گئے۔ پاکستان میں بھی ابتدائی عشروں میں اس کا تھوڑا بہت ثمر مزدور کو ملا لیکن اب مزدور کی جس طرح مٹی پلیت ہو رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے مزدوروں کو بھی شکاگو کے مزدوروں کی طرز کی قربانی دینے کی ضرورت ہے۔ یہ الگ بات کہ شکاگو کے مزدوروں نے خون دے کر اپنا حق حاصل کرلیا تھا لیکن پاکستان میں اس سے بڑھ کر جانی قربانی دینے کے باوجود اس بات کی ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ ان کی قربانی رنگ لائے گی نہیں؟
مزدور کی اس ممکنہ قربانی کے بارے میں غیر یقینی کی وجہ یہ ہے کہ جس ملک میں 75 سال سے بااثر سیٹھوں کو سالانہ اربوں پاکستانی کرنسی کی نہیں بلکہ ڈالر میں سبسڈی دی جاتی ہو اور مزدور کیلئے صرف طفل تسلی ہو وہاں یقیناً شکاگو جیسی قربانی دینے کے عمل کو ریاست مخالف سرگرمیوں میں ڈال کر کوئی اور ہی رنگ دیا جا سکتا ہے۔ اس لئے ایسی کوئی بھی کوشش رائیگاں ہی جائے گی۔ پاکستان کے "غریب” سیٹھوں کو 17.4 ارب ڈالر کی سبسڈی دی گئی ہے۔
اس سبسڈی کے مقابلے میں یہاں ایک چھوٹی سی مثال کم سے کم اجرت ہے۔ حکومت پاکستان نے 25 ہزار روپے کم سے کم اجرت مقرر کرکے گویا اپنا فرض پورا کردیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے صرف پانچ فیصد مزدوروں کو اعلان کردہ کم سے کم اجرت ملتی ہے جبکہ95 فیصد مزدوروں کو نہ تو یہ مقرر کردہ اجرت ملتی ہے اور نہ حکومت اس پر عمل درآمد کرانے میں کوئی دلچسپی رکھتی ہے۔ بڑھتی غربت کا عالم یہ ہے کہ ملک کی 43 فیصد آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ملک کی معیشت ہے کہ گرتی ہی جارہی ہے جس کی وجہ سے وہ کم سے کم اجرت بھی اپنی 40 فیصد قدر کھو چکی ہے۔
ڈالر جس تیزی سے گر رہا ہے اس کی وجہ سے اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں 300 فیصد اضافہ ہوا۔ اس تناسب سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سال پہلے مزدور کی اگر 25 ہزار تنخواہ تھی، اس رقم کی وقعت اب گھٹ کر کتنی کم ہو گئی ہے۔
ملکی حکام خواہ حکومت سے ہوں یا اپوزیشن سے وہ الیکشن الیکشن کھیل رہے ہیں، پارلیمنٹ نواز شریف، زرداری اور عمران خان کی خواہشات کے احترام اور مخالفت میں ربڑ سٹیمپ بن کر رہ گئی ہے۔ وہاں مزدور کی حالت زار کا ذکر گویا ممنوع ہوچکا ہے۔ پارلیمنٹ کے اراکین کو شائد ہی یہ معلوم ہوکہ مملکت خداداد پاکستان کا دنیا بھر میں مزدوروں کو کم ترین اجرت دینے میں 153 واں نمبر ہے جبکہ خطے میں پاکستانی مزدور اجرت کی ادائیگی میں سب سے نیچے ہیں۔
پارلیمنٹ میں غریب ہم وطنوں کے بارے میں یہ مالا تو جپی جاتی ہے کہ عوام طاقت کا سر چشمہ ہیں لیکن اس سرچشمے کی حالت زار پر بحث کے بجائے کبھی تین چار کے فیصلے پر گھنٹوں اجلاس ہوتے ہیں تو کبھی موافق ہو تو پارلیمانی بالادستی میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں۔ اس لئے ان فورمز پر پارلیمان کی سرچشمہ قوت کو خاطر میں نہیں لایا جاتا جس کی وجہ سے بندہ مزدور کے حالات تلخ سے تلخ تر ہوتے جارہے ہیں۔
پاکستان کے مزدوروں کو بھی تقسیم در تقسیم کردیا گیا ہے، اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے یہ مزدور اب یونین سازی بھی نہیں کرسکتے کیونکہ ملک کے 80 ملین مزدوروں میں سے صرف ایک فیصد مزدور ایسے ہیں جن کو لولی ٔلنگڑی مزدور یونین کی چھتری حاصل ہے۔ ان مزدوروں میں مختلف شعبوں سے وابستہ مزدور ہیں تاہم مزدوروں کی ایک قسم ایسی ہے جس کو نہ تو حکومتی ادارے مزدور مانتے ہیں اور نہ ہی ان کے اداروں کے مالکان اپنے مفادات کے وجہ سے ایسا سمجھتے ہیں۔
مزدوروں کی یہ قسم قلم اور کیمرے کے مزدوروں کی ہے جن کے ہتھیار قلم اور کیمرہ ہیں۔ یہ مزدور کہلائے تو صحافی جاتے ہیں اور دنیا بھر میں ہونے والی ظلم و زیادتی اپنے قلم اور کیمرے سے معاشرے کے سامنے لاتے ہیں لیکن اس قدر بے چارے ہیں کہ اپنے ساتھ ہونے والے معاشی ‘بلاد کار’ کو سامنے نہیں لاسکتے۔ سوشل میڈیا کے آنے سے پہلے قلم اور کیمرے کے ان مزدوروں کی خبر کا سامنے آنا کافی محال تھا لیکن سوشل میڈیا کی منہ زوری بھی ان مزدوروں کے لئے سود مند ثابت نہیں ہوئی جس کی بنیادی وجہ قلم اور کیمرے کے مزدوروں کی اپنی بے شرمیاں ہیں۔ یہ مزدور اگر کہیں اپنا دکھڑا سنا دیں تو اس کے ناعاقبت اندیش ساتھی اس پوسٹ کو بطور ثبوت میڈیا مالکان کے سامنے پیش کردیتے ہیں جس کے بعد وہ مزدور معتوب قرار دے دیا جاتا ہے اور ثبوت فراہم کرنے والا معتبر بن کر میڈیا مالکان کا قرب حاصل کر لیتا ہے۔ اکثر صحافت کے اسی قسم کے کردار مالکان کے مفادات کیلئے کام کرتے ہیں اور اس عمل میں وہ اپنے ہی جیسے مزدور کو ملازمت سے برخاست تک کرانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
صحافتی مزدور اس اندرونی اختلاف کی وجہ سے بہت نقصان اٹھاتا ہے جبکہ مالکان اس نااتفاقی کو ہوا دے کر ہمیشہ اپنا الو سیدھا کرتے رہے ہیں۔ اس لئے قلم اور کیمرے کے مزدور اپنی نا اتفاقی سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، اس عدم اتفاق کی وجہ سے قلم اور کیمرے کے مزدوروں کی یونین بھی بہت کمزور ہوچکی ہے جبکہ یونین میں دھڑے بندی نے بھی ان صحافتی مزدوروں کو حقوق کے حصول کی جنگ میں کمزور تر کر دیا ہے۔
صحافتی مزدور کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ جس کیمرے کو استعمال کر رہا ہے وہ تو انشورڈ ہے لیکن اس کا ادارہ اپنے صحافتی مزدور کی انشورنس میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ یہ مزدور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس قدر لاچار ہو چکا ہے کہ اب تو اس کے پاس تقررنامہ بھی نہیں۔ مالکان نے تھرڈ پارٹی کی سہولت لے لی ہے۔ ان حالات کی وجہ سے میڈیا ہاؤسز ایسے عقوبت خانوں میں بدل گئے ہیں جہاں جب تک سیٹھ مطمئن ہے اس وقت صحافتی مزدور باروزگار ہے، جب وہ چاہے تو دفتر کے باہر کھڑے گارڈ کے ذریعے صحافتی مزدور کو مطلع کردیا جاتا ہے کہ آپ دفتر کے اندر نہیں جا سکتے۔
ملک میں صحافتی مزدور اس وجہ سے بھی رل رہے ہیں کہ پہلے جو پیشہ ور ایڈیٹر ہوا کرتا تھا وہ مالک اور صحافیوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتا تھا۔ اب سیٹھ خود ایڈیٹر بن بیٹھا ہے۔ بقول مجید نظامی مرحوم کہ” صحافتی ڈیکلریشن اب گوالوں کی جیب میں بھی آگیا ہے”سے پس پردہ کہانی واضح ہوجاتی ہے۔ معاشرے کے بہت سے نو دولتئے بلکہ جرائم پیشہ عناصر نے بھی میڈیا ہاؤس شروع کرلیا ہے اور صحافتی اقدار سے بے بہرہ یہ مالکان قلم اور کیمرے کے مزدوروں میں ایسی کالی بھیڑیں پروان چڑھا چکا ہے جن کو کہا جاتا ہے کہ جاؤ خود بھی کھاؤ اور ہمیں بھی کھلاؤ۔ اس قسم کے مالکان کی وجہ سے صحافت میں آج صحافی کم اور بلیک میلر زیادہ بڑھ رہے ہیں معاشرے میں جس طرح کرپشن بڑھ گئی ہے، صحافت میں بھی یہ بدعنوانی عود آئی ہے ایسے میں صحافی گھٹ اور ترجمان بڑھ گئے ہیں۔
اب نوبت یہ آگئی ہے کہ حقیقی صحافی منہ چھپاتے ہیں اور ترجمان چھپ رہے ہیں یہ حقیقی صحافی اپنا تعارف کراتے بھی کتراتے ہیں جبکہ لفافوں پر چلنے والے جیبوں پر ڈاکے ڈال کر خود کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، مگر صحافت مرگئی ہے۔
بہت سے لوگ ایسے بھی صحافی بن گئے ہیں جو اس قافلے میں اس لئے صحافی بن کر داخل ہوئے ہیں تاکہ اپنے کاروبار کو درپیش امور صحافی بن کر محفوظ کرسکیں، ایسے جزوقتی بہروپیوں کے طرز بودوباش سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کیا ہیں؟
اب 3 مئی کو عالمی یوم آزادی صحافت منایا جائے گا، بڑے بڑے دعوے تو ہوں گے لیکن سچے صحافتی مزدور کا نوحہ اب کوئی سننے اور سمجھنے والا نہیں، ریاست کے پاس بھی فرصت نہیں لیکن اس سے گلہ بھی کیا کرنا کہ ریاست ماں جیسی نہیں رہی۔ اسی لئے قلم اور کیمرے کا مزدور راندہ درگاہ ہوچکا ہے لیکن وہ کسی سے اپنی خبر شئیر نہیں کرسکتا۔ اسی کو چراغ تلے اندھیرا کہا جاتا ہے۔