حکومتی اتحادیوں میں اختلافات، بلاول بھٹو مولانا سے ملاقات کے لئے پہنچ گئے
وزیراعظم ہاؤس میں حکومتی اتحادیوں کے اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی، جے یو آئی نے عمران خان سے مذاکرات کی مخالفت کردی۔
ذرائع کے مطابق حکومتی اتحادیوں کے اجلاس میں بلاول بھٹو زرداری نے اپوزیشن سے مذاکرات کے معاملے پر اصرار کیا اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم) ، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) اور خالد مگسی کی جانب سے بلاول بھٹو کے مذاکرات کے مؤقف کی تائید کی گئی۔
ذرائع کے مطابق چوہدری سالک اور محسن داوڑ نے بھی بلاول بھٹو کے مؤقف کی تائید کی تاہم حکومتی اتحادیوں کے اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) نے مذاکرات سے متعلق بلاول بھٹو کے مؤقف کی مخالفت کی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جے یو آئی نے مؤقف اپنایا کہ عمران خان کوئی سیاسی قوت نہیں، ڈائیلاگ کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس موقع پر زین بگٹی نے کہا کہ ہم ڈائیلاگ کےمخالف نہیں تاہم عمران خان ایک جھوٹا انسان ہے، عمران خان بھروسے کے لائق نہیں۔
ذرائع کے مطابق اس دوران بلاول بھٹو نے کہا کہ بات چیت کے دروازے بند کردینا ہمارے اصولوں کے خلاف ہے، بات چیت کے دروازے بند کردینا غیرجمہوری اور غیرسیاسی بھی ہے، یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کرکے ملک کو بحران سے نکالا جائے۔
ذرائع کے مطابق اپوزیشن سے مذاکرات کے معاملے پر اختلاف کے بعد حکومتی اتحادیوں کا اجلاس کسی اتفاق رائے کے بغیر ختم ہوگیا۔
ادھر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری وفد کے ہمراہ مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے لئے ان کے آبائی گھر عچدالخیل پہنچ گئے۔
عبدالخیل آمد پر مولانا ضیاء الرحمان نے ہیلی پیڈ پر پیپلز پارٹی کے وفد کا استقبال کیا جبکہ بلاول بھٹو زرداری نے صدر آصف علی زرداری کا خصوصی پیغام مولانا فضل الرحمان کو پہنچایا۔
انہوں نے مرحوم مفتی عبدالشکور کی وفات پر مولانا فضل الرحمان سے تعزیت کی اور ان کی مغفرت کی دعا کی۔
ملاقات میں حکمران اتحاد کی جانب سے تحریک انصاف سے مذاکرات کے معاملہ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر دونوں جماعتوں کے قائدین نے ملک میں پائیدار جمہوریت اداروں کے مثبت آئینی کردار کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔
ملاقات میں ملک کو داخلہ اور خارجی محاذ پر درپیش مشکلات اور اس حوالے سے گزشتہ ایک سال کے دوران پی ڈی ایم حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔
ملاقات میں سی پیک کے معاملات کو مزید بہتر بنانے، گوادر کی تجارتی معاشی اہمیت اور تحریک انصاف دور حکومت میں ان منصوبوں کو پہنچنے والے نقصانات کے تدارک کے لیئے اقدامات اٹھانے کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔