انیلہ نایاب
خیبر پختونخوا میں رواں سال سرکاری سکولوں کے نتائج کے مطابق 15 فیصد نمبرز لینے والے طلبہ و طالبات کو بھی اگلی جماعت پروموٹ کیا گیا ہے تاہم سوال یہ ہے کہ جو سٹوڈنٹس سالانہ امتحانات میں بمشکل 15 فیصد نمبر حاصل کر کے پاس ہو جائیں کیا وہ اگلی جماعت میں جا کر امتحان پاس کر سکتے ہیں؟
اسی طرح پڑھائی میں کمزور بچوں کو ہر سال اگلی جماعت میں پروموٹ کیا جاتا رہا تو آگے جا کر میٹرک کے سالانہ امتحانات میں سرکاری سکولوں کے نتائج کا کیا حال ہو گا۔
میں سمجھتی ہوں کہ سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کے نتائج میں واضح فرق کی وجہ یہ ہے کہ سرکاری سکولوں میں پڑھائی میں کمزور بچوں کو فیل کرنے کی بجائے اگلی جماعت پروموٹ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے کمزور بچے پڑھائی میں دلچسپی لینے کی بجائے اپنے آپ کو ہر غم اور بوجھ سے آزاد تصور کرتے ہیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر سال اسی طرح پاس ہوتے ہوتے انہیں بورڈ کے امتحانات میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ قصوار وار ایک استاد/ استانی کو ٹھہرایا جاتا ہے۔
اس حوالے سے جب سرکاری سکول کے اساتذہ کا موقف جاننے کی کوشش کی تو پشاور کے ایک سرکاری سکول کی استانی نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ وہ 33 فیصد سے کم نمبرز لینے والے سٹوڈنٹس کو فیل کر دیتے ہیں تاہم سفارش کی وجہ سے 10 فیصد نمبر لینے والے بچوں کو بھی مجبوری کے تحت نئی کلاس میں بھٹایا جاتا ہے۔
ان کے بقول وہ والدین جو پورا سال سکول میں بچوں کی کوئی خیر خبر نہیں لیتے، بچے کے فیل ہونے پر سکول کے چکر لگانا شروع کر دیتے ہیں اور اساتذہ سے توقع رکھتے ہیں کہ پڑھائی میں کمزور اور 33 فیصد سے کم نمبر لینے والے ان کی لاڈلی یا لاڈلے کو پاس کیا جائے جبکہ ایسا نہ کرنے پر اکثر والدین کی جانب سے اساتذہ کو دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔
"مجھے شوہر گھر سے نکال دے گا”
پشاور میں سرکاری سکول کی استانی عائشہ نے بتایا کہ سالانہ امتحانات کے نتائج کے بعد فیل ہونے والی بچیوں کی ماؤں کا تانتا بندھا رہا، جو سارا سال اساتذہ کے بلانے پر بھی سکول نہیں آتیں وہ آئے روز یہ سفارش ساتھ لے کر آتیں کہ ان کی بچی کو کسی نہ کسی طریقہ سے پاس کیا جائے۔
ایک والدہ کے متعلق استانی نے بتایا کہ اس کے شوہر نے بیوی کو یہ کہہ کر سکول بھیجا کہ اگر اس کی فیل بیٹی کو اگلی جماعت میں پروموٹ نہ کیا گیا تو وہ بیوی کو گھر سے نکال دے گا۔ یہ کوئی انسانی فعل نہیں کہ بیٹی کے فیل ہونے پر ماں کو گھر سے باہر نکل دیا جائے، بہتر ہوتا یہی والد دن میں ایک مرتبہ بچی سے ہوم ورک کا پوچھتا، اس کی مدد کرتا، اگر غیرتعلیم یافتہ ہے تو محلہ میں کسی ماسٹر جی سے ٹیوشن کرواتا لیکن ایسا برتاؤ اسے ہرگز زیب نہیں دیتا!
اس صورتحال میں ناقص رزلٹ کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بچے یہ سوچتے ہوں گے کہ پاس ہوں یا فیل پروموٹ تو ویسے بھی ہونا ہے اور یوں سرکاری سکولوں کی کارکردگی پر سوالات اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں اور نجی سکول کے مقابلہ میں سرکاری سکول کے اساتذہ کو طنز کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
کیا کرنا چاہیے؟
سرکاری سکولوں میں شش ماہی، نو ماہی اور سالانہ امتحانات لیے جاتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ ہر مہینے کے آخر میں تمام مضامین کا الگ الگ ٹیسٹ لیا جاتا ہے جس کا مقصد سٹوڈنٹس کی قابلیت کی جانچ پڑتال کرنا ہوتا ہے۔
میرے خیال میں اگر اساتذہ مذکورہ ٹیسٹ اور امتحانات کے ساتھ سالانہ امتحانات کے لئے ایسے پرچے تیار کریں جن میں صرف قابل بچوں کو نہیں بلکہ کمزور اور نالائق بچوں کو بھی مدنظر رکھا جائے تو امید ہے کہ وہ بچے بھی کچھ حد تک اس قابل ہوجائیں گے کہ سفارش کی بجائے وہ اپنی تھوڑی بہت محنت کی وجہ سے پاس ہو جائیں۔
اس طرح حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تمام سرکاری سکولوں کے اساتذہ پر یہ لازم کریں کہ وہ بچوں کی ذہن سازی میں اپنا کردار ادا کریں اور انہیں انتہائی پیار و محبت سے سمجھائیں کہ اگر وہ پڑھائی میں دھیان نہیں دیتے تو یہ ان کے تعلیمی مستبقل کے لئے اچھی بات نہیں ہے جبکہ اگر وہ دل لگا کر پڑھیں تو اس میں نہ صرف ان کی بلکہ پوری قوم کی کامیاب چھپی ہوئی ہے۔