رمضان میں ازدواج کے ساتھ صحبت، گناہ یا عمل عبادت؟
حمیرا علیم
اللہ تعالٰی نے انسانوں کے جوڑے بنائے تاکہ وہ ان سے سکون حاصل کریں اور نکاح کا حکم دیا تاکہ نسل انسانی کی بقاء ہو اور انسان گناہ سے بچ سکے۔ اگرچہ آج کل یہ دونوں ہی مقاصد پورے نہیں ہو رہے، لوگ حتٰی کہ شادی شدہ خواتین و حضرات بھی غیر شرعی تعلقات رکھتے ہیں اور اسے گناہ نہیں سمجھتے جبکہ حکومت کی خاندانی منصوبہ بندی کی پالیسی کی وجہ سے اور کچھ مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہو کر بچے بھی کم ہی مناسب سمجھے جاتے ہیں۔
شادی شدہ ہوتے ہوئے کسی غیر مرد یا عورت سے تعلقات کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟ شاید ہر شخص کے لیے اس کی کوئی خاص وجہ ہو لیکن بیشتر افراد اس لیے بھی اس گناہ میں مبتلا ہیں کیونکہ وہ اپنے نصف بہتر سے کسی بھی حال میں مطمئن نہیں ہوتے۔ احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مرد و زن دونوں کو اپنے زوج کے لیے سجنے سنورنے کا حکم دیا۔ ایک دوسرے کے ساتھ دوستوں کی طرح رہنے ہنسنے کھیلنے اور گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کی مثال خود ایسا کر کے دکھائی لیکن ہمارے ہاں ایسا کسی اور کے ساتھ تو ممکن ہوتا ہے اپنے زوج کے ساتھ نہیں۔
مرد حضرات یہ تو چاہتے ہیں کہ ان کی بیگم ماسی کم ماڈل ہو یعنی گھر اور باہر کے کاموں میں طاق اور خوبصورت سجی سنوری ہنس مکھ ہو لیکن خود وہ اپنے حلیے سے بے پرواہ ہوتے ہیں۔ شوہر ہو یا بیوی گھر میں تو گندے مندے اور بیزار رہتے ہیں لیکن جب کہیں باہر جانا ہو تو سج سنور کر نکلتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب دونوں کبھی گھر میں کچھ بہتر حلیے میں ہوں تو بچے سوال کرتے ہیں کیا آپ کہیں جا رہے ہیں یا گھر میں کوئی تقریب ہے؟ جب ازدواج کے پاس ایک دوسرے کے لیے سجنے سنورنے اور بات چیت کا وقت نہیں ہوتا تو وہ اپنی ذہنی و جسمانی تسکین کے لیے گھر سے باہر دیکھنے لگتے ہیں۔ اگرچہ اللہ تعالٰی نے نفس پر قابو پانے کے لیے روزے رکھنے، پردہ کرنے اور نگاہ نیچی رکھنے کا حکم دیا ہے مگر ہم باقی احکام شریعت کی طرح ان احکام کو بھی پس پشت ڈال کر صرف اپنی تسکین میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
اس گناہ سے بچنے کے لیے اللہ تعالٰی نے ازدواج کو ایک دوسرے کے حق زوجیت ادا کرنے کی تاکید فرمائی۔ سورہ البقرہ کی آیت 185 کے مطابق ابتدائے اسلام میں جب روزے فرض ہوئے تو رمضان کے مہینے میں ازدواج کو قربت سے منع تھا۔پھر ایک روز عمر رضی اللہ عنہ نے عشاء کے بعد بیوی سے قربت اختیار کر لی۔ صبح یہ واقعہ سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمر رضی اللہ عنہ تم سے تو ایسی امید نہ تھی اسی وقت البقرہ کی آیت 187 اتری جس میں رمضان کی راتوں کو صحبت کی اجازت دی گئی۔ نبی صلعم نے ازدواج کے ساتھ صحبت کو بھی ایک عمل عبادت کہا کیونکہ اس طرح وہ دونوں ایک دوسرے کو گناہ سے بچا رہے ہوتے ہیں۔
مفتی منک ایک قصہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز امام مسجد فجر کی نمازمیں لیٹ ہوگئے تو لوگوں نے امامت کے لیے نائب کو کھڑا کر دیا اتنے میں امام صاحب پہنچ گئے۔ نماز کے بعد لوگوں کے استفسار پر کہنے لگے کہ میں ایک اور عبادت کی وجہ سے لیٹ ہو گیا۔
اس سلسلے میں اس قدر رخصت عطا کی گئی کہ اگر انسان کسی وجہ سے فجر سے پہلے غسل جنابت نہ کر سکے تو سحری کھا کر نہا لے اور روزہ رکھ لے لیکن روزہ قضا نہ کرے۔
ان تمام احکامات کا مقصد ازدواج کے لیے پرسکون زندگی، گھر اور گناہ سے بچاؤ ہے نہ کہ ایک دوسرے کو اپنے فرائض بھلا کر صرف حقوق یاد دلانا اور ان کا مطالبہ کرنا ہے کیونکہ دور جدید میں فیمینسٹس اور لبرلز نے عورتوں کو یہ باور کروانا شروع کر دیا ہے کہ مرد کی تابعداری سے ان کا مقام گھٹ جاتا ہے، شوہر بیوی کی رضا مندی کے بغیر صحبت اختیار کرے تو یہ میریٹل ریپ ہے، عورت کو معاشی طور پرخود مختار ہونا چاہیے۔
ذرا سوچیے اللہ تعالٰی نے مرد کو ایک درجہ فضیلت دی اسے قوام بنایا تو ہم کیسے اس کی برابری کر سکتے ہیں؟یا ہم اللہ تعالٰی کے حکم کے منکر ہیں؟ ہمارے خاندان کے مرد ہمارے کفیل ہیں تو ہمیں کیا پڑی ہے کہ جابز کریں اور گھر اور باہر کی ذمہ داریاں اپنے نازک کندھوں پر ڈالیں۔ نکاح کے وقت ازدواج نے گواہوں کی موجودگی میں مہر کی ادائیگی کے ساتھ ایک دوسرے کو اپنے جسم پر اختیار دیا ہوتا ہے اب دونوں کی مرضی وہ جب چاہیں جس وقت چاہیں اپنا یہ اختیار استعمال کریں اس میں ریپ کہاں سے آ گیا؟ جب مرد ہماری تمام ضروریات، خرچے اور خواہشات پوری کرتا ہے تو اسے یہ اجازت حاصل ہے کہ وہ حق زوجیت ادا کرے جبکہ اگر کوئی عورت اپنے شوہر سے صحبت کی خواہاں ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ اس کی ضرورت پوری کرے تاہم اگر دونوں ایسا نہ کرنا چاہیں تو طلاق اور خلع کا حق رکھتے ہیں۔
لیکن جیسا کہ انسانی ہمدردی اور اخلاق کا تقاضا ہے کہ اگر دونوں کسی تھکن، بیماری یا کام کے دباؤ وغیرہ کے باعث ایسا نہ کر سکیں تو دونوں ایک دوسرے کا احساس کریں نہ کہ اس بات کو ایشو بنا کر لڑیں یا فورا علیحدگی اختیار کر لیں۔
فرض کریں ایک مرد کسی حادثے میں معذور ہو جاتا ہے عورت کینسر فالج یا کسی اور بیماری کا شکار ہو جاتی ہے تو کیا زوج ان سے الگ ہو جائیں۔ یاد رکھیے ہمیں اپنے جوڑے کے لئے تسکین کا باعث کہا گیا ہے اور قرآن ازدواج کو ایک دوسرے کا لباس کہتا ہے۔ لباس کا مقصد سرد و گرم موسم کی سختیوں سے بچانا اور زیب و زینت کرنا ہے، لباس گندا ہو جائے تو اسے دھو کر استعمال کیا جاتا ہے پھینک نہیں دیا جاتا۔