لائف سٹائلکالم

ماہواری: اگر بچی روزہ نہیں رکھتی تو اسے کٹہرے میں کیوں کھڑا کیا جائے؟

حمیرا علیم

یوں تو پاکستانی خواتین کو گھر اور باہر لاتعداد مسائل کا سامنا ہے اور ان پر اکثر آواز بھی اٹھائی جاتی ہے تاہم کچھ ایسے مسائل بھی ہیں جن پر بات کرنا بے حیائی کی علامت سمجھا جاتا ہے حالانکہ ان معاملات کا تعلق انسانی صحت اور طہارت سے ہیں۔

رمضان المبارک میں اکثر خواتین کو اس وقت نہایت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب ان کا روزہ نہیں ہوتا اور وہ کچھ کھا پی رپی ہوتی ہیں۔ اس دوران گھر کا کوئی فرد یا آفس میں کوئی کولیگ دیکھ کر یہ سوال کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے کہ آپ کا روزہ نہیں ہے؟

دور جدید کے سکولوں میں بچوں کو انسانی جسم اور اس کے نظاموں کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے اور انٹرنیٹ نے بھی بچوں کو شعور عطا کر دیا ہے اس لیے آج کے بچے ہر چیز سے واقف ہیں۔

پھر جب قرآن پاک نے پہلی سورت البقرہ میں اس موضوع پر بات کی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ایک سات سال کا بچہ بھی یہ آیات پڑھے گا اور انہیں سمجھے گا کیونکہ قرآن کی تلاوت کا مطلب ہی یہ ہے کہ عبارت یوں پڑھی جائے کہ اس کا مفہوم سمجھ آ جائے، پھر ایسا کیوں ہے کہ ہم اس پر بات کرنے سے ہچکچاتے ہیں؟

انصار کی کچھ خواتین نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کچھ مسائل پوچھنے آئیں جن میں سے کچھ پیریڈز اور کچھ ازدواجی زندگی کے بارے میں تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں یہ سوالات پوچھتے سنا تو حیرت ہوئی جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ‘اَنصار کی عورتیں کتنی اچھی ہیں کہ شرم و حیا انہیں دین کی سمجھ حاصل کرنے سے نہیں روکتی۔’

ہم اس بے جا جھجک اور شرم کی وجہ سے بہت سے مسائل کا شکار ہیں، بچے بچیاں بلوغت کے بعد طہارت کے مسائل سے آگاہ نہیں ہوتے اور اکثر شادی کے بعد بھی ان مسائل کا سامنا کرتے ہیں جبکہ اسلام کی رو سے یہ والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو طہارت کے مسائل سکھائیں کیونکہ ہر عبادت کے لیے وضو اور پاکیزگی لازمی ہے اسی لیے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے۔

ایسا ہی ایک مسئلہ پیریڈز کا بھی ہے اللہ تعالٰی نے اسے یوں بیان کیا ہے’ اور لوگ آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ وہ گندا اور نقصان دہ خون ہوتا ہے، اس لیے حالت حیض میں اپنی عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں، ان کے قریب نہ جاؤ، پس جب خون سے اچھی طرح پاک ہوجائیں تو ان سے قربت اختیار کرو۔’

سائنسی تحقیق سے بھی یہ ثابت ہو چکا ہے کہ 91 فیصد خواتین کو یہ ڈسمینوریا ہوتا ہے جبکہ 29 فیصد کے لیے یہ شدید تکلیف کا باعث ہوتے ہیں، انہیں موڈسوئنگز ہوتے ہیں جس میں سر، کمر اور پیٹ میں درد ہوتی ہے جبکہ بعض کی حالت اس قدر بگڑ جاتی ہے کہ وہ حرکت کے قابل بھی نہیں ہوتیں اور انہیں دردکش انجیکشن لگوانے پڑتے ہیں۔

اللہ تعالٰی نے تو خواتین کو ان دنوں میں اتنی چھوٹ دے دی کہ نماز روزے اور دیگر عبادات سے مستثنٰی قرار دے دیا۔ بطور گواہ سہولت دی کہ دو خواتین کو گواہ کیجئے کیونکہ ان دنوں میں حافظہ کمزور ہو سکتا ہے اگر ایک بھول جائے تو دوسری یاد دلا دے مگر ہمارے ہاں دو انتہائیں پائی جاتی ہیں ایک وہ، جو پیریڈز والی خواتین کو بالکل ہی آوٹ کاسٹ کر دیتے ہیں۔تسبیح، مصلی، قرآن چھو نہیں سکتیں اور کیلاش کے بشالی، ہندووں کے چوپاڈی کی طرح انہیں ان دنوں کے اختتام تک رہائشی علاقے سے باہر رہنا پڑتا ہے، اور دوسری طرف ہم انہیں رمضان میں بھی کھانے پینے، عبادات نہ کرنے کی چھوٹ نہیں دیتے اور اکثر گھروں میں خواتین ان دنوں میں بھی سحر و افطار کھاتی ہیں،  یہ ظاہر کرتی ہیں کہ وہ روزے سے ہیں اور عبادات کر رہی ہیں۔

مجھے یاد ہے جب ہم پیریڈز کے بارے میں آیات پڑھ رہے تھے تو میری استاد ڈاکٹر فرحت ہاشمی نے اپنے گھر کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا تھا’ ہمارے والد خود عالم دین تھے انہوں نے ہماری والدہ کو اور ہمیں خود قرآن، حدیث و فقہ پڑھائے تھے۔ روزانہ صبح وہ ہم سب بہن بھائیوں کو فجر کی نماز کے لیے اٹھاتے تھے او ہم میں سے جس نے نماز نہیں پڑھنی ہوتی تھی وہ بتا دیتی تھی جبکہ والد نے کبھی کوئی سوال نہیں کیا تھا۔’

کیا ہمارے گھر کے مرد اس حقیقت سے واقف نہیں کہ ہر ماہ ہر عورت کو پیریڈز ہوتے ہیں یہ ایک قدرتی عمل ہے کوئی چھوت کی بیماری نہیں کہ اس پر انہیں شرمندہ کیا جائے جبکہ اگر گھر کی کوئی بچی یا خاتون نماز نہیں پڑھ رہی یا روزہ نہیں رکھ رہی تو اسے کٹہرے میں کیوں کھڑا کر دیا جاتا ہے؟

ایسا کیوں ممکن نہیں کہ ان دنوں میں خواتین کو گھر اور آفس کے کاموں میں تھوڑا ریلیف دے دیا جائے تاکہ وہ جسمانی اور ذہنی طور پر ریلیکس رہ سکیں۔ کئی مغربی ممالک میں خواتین کے لیے ایسی سہولیات موجود ہیں حتی کہ اسپین میں خواتین ان دنوں چھٹیاں لے سکتی ہیں، بھارت میں ‘زوماٹو‘ فوڈ ڈیلیوری کمپنی میں اگست 2020ء سے پیریڈز کے دوران خواتین کو چھٹیاں لینے کی اجازت ہے وہاں ان دنوں میں ان کی ڈائٹ کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے۔

پھر ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟ جبکہ یہ تو ہمارے مردوں کا فرض بھی ہے کہ وہ اپنے خاندان کی خواتین کا ہر طرح سے خیال رکھیں۔ بیوی کو یہ حکم ہے کہ اگر شوہر اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے اسے بلائے تو خواہ وہ آٹا ہی کیوں نہ گوندھ رہی ہو اسے انکار نہ کرے لیکن اللہ تعالٰی نے ان دنوں عورت کو رخصت عطا فرمائی کیونکہ اللہ تعالٰی کو پتہ ہے کہ وہ اذیت میں ہے، پھر ہمارے مرد اس چیز کا احساس کیوں نہیں کرتے؟

پیریڈز بھی بالکل ویسا ہی ایک قدرتی نظام ہے جیسے کہ نظام انہضام و اخراج، اس لیے اس پر بات کیجئے، بچوں کو بتائیے کہ ان دنوں میں خواتین کو خاص رخصت ہے اور اگر وہ عبادات نہ کریں تو بھی انہیں گناہ نہیں۔ ماوں اور بھابھیوں کو چاہیے کہ وہ باپ بھائیوں کو سمجھائیں کہ وہ بچیوں سے عبادات نہ کرنے کے بارے میں استفسار نہ کیا کریں اگر بچیاں اپنے ہی گھروں میں آرام سے زندگی نہیں گزار سکتیں تو کیا فائدہ؟

احترام رمضان تو ہم سب پر واجب ہے اور روزے دار کے سامنے بیٹھ کر کھانے سے بھی روکا جاتا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سارا دن صرف اس ڈر سے کچھ کھایا پیا نہ جاۓ کہ کوئی کھاتے ہوۓ دیکھ نہ لے، اگر کسی نے آپ کو کھاتے پینے دیکھ بھی لیا تو اس میں شرمندگی کی کوئی بات نہیں ہے کیوں کہ یہ وہ چھوٹ ہے جو آپ کو رب العزت کی جانب سے ملی ہے جبکہ علماء کا فتویٰ ہے کہ جو پیریڈز میں روزہ رکھے وہ گناہگار ہے۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button