جنگوں میں انسانی حقوق سے متعلق مختلف معاہدے اور قوانین کیسے وجود میں آئے؟
آفتاب مہمند
جب سے انسان کی تخلیق ہوئی ہے اور انسانوں نے اکھٹے رہ کر زندگی گزارنی شروع کی ہے ان کے درمیان اختلافات و تصادم کی ابتداء ہوئی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں آج تک لاتعداد جنگیں لڑی گئی ہیں اور جب سے انسانوں کے مابین جنگیں لڑی جارہی ہیں، اس وقت سے کسی نہ کسی شکل میں جنگی اخلاقیات و قوانین رائج رہے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جوں جوں انسان ترقی کرتا گیا جنگوں کی تباہ کاریاں بڑھتی رہیں، اس صورتحال میں یہ ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ انسانیت کا درد رکھنے والے اس بات پر غور وحوض کریں کہ جنگ کی تباہ کاریوں کو کس طرح ممکنہ حد تک کم کیا جا سکتا ہے اور خصوصاً دور ان جنگ عام افراد کا تحفظ کس طرح یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
اس موقع پر مسلمان اہل علم اورصاحب اختیار لوگ آگے بڑھ کر اس معاملے میں دنیا کی رہنمائی کرنا چاہتے تھے کیونکہ ان کے پاس یہ قوانین ہزار سالہ ورثے کی شکل میں مدون و محفوظ تھے لیکن کئی وجوہات کی بناء پر ایسا نہ ہو سکا اور مغرب نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور کئی دہائیوں کی تحقیق کے بعد جنگی اخلاقیات پر مشتمل بین الاقوامی قانون انسانیت (International Humanitarian Law) دنیا کے سامنے آئے ۔ اس مجموعہ قوانین کو قانون جنگ (Law of War) اور مسلح تصادم کا قانون (Law of Armed Conflict) بھی کہا جاتا ہے۔بین الاقوامی قانون انسانیت بین الاقوامی قوانین کا ایک اہم حصہ ہے جو مسلح تصادم میں مزید شریک نہ ہونے والوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور جنگی اخلاقیات وضع کرتا ہے۔
IHLیعنی International Humanitarian Law بین الاقوامی اور غیر بین الاقوامی دونوں طرح کے مسلح تصادم پر لاگو ہوتا ہے۔ بین الاقوامی قوانین انسانیت جو کہ 1864ء میں بنے تھے۔ تاریخ کے حوالے سے ہنری ڈیوننٹ (Henry Dunant) جنکا تعلق سویٹزرلینڈ کے شہر جنیوا سے تھا۔ ہنری ایک سماجی کارکن، انسان دوست و کاروباری شخصیت تھے نے IHL قوانین مرتب کئے تھے۔ انکا تعلق جنیوا سے ہونے کے باعث IHL کا ہیڈکوارٹر جنیوا ہی میں ہے۔
اسی طرح مذکورہ قوانین کیلئے 1968ء میں St.Peterberg Declaration, 1899ء میں Hague Conventionاور 1907ء میں Hague Convention کا انعقاد ہوا جسکے نتیجے میں ان قوانین بنانے کیلئے مختلف اوقات میں پروٹوکول و ڈکلریشنز پیش ہوئے جبکہ باقاعدہ طور پر یہ قوانین بنائے گئے۔ ان جنگی قوانین کے حوالے سے جنیوا میں باقاعدہ طور پر عالمی سطح کے اجلاس منعقد ہوتے رہتے ہیں جبکہ آگاہی و شعور پیدا کرنے کیلئے پاکستان سمیت دنیا بھر میں مختلف پروگرامات کا انعقاد ہوتا رہتا ہے۔
آداب القتال سے متعلق بین الاقوامی قانون جسے ”مبنی بر انسانیت بین الاقوامی قانون “ (International Humanitarian Law) بھی کہا جاتا ہے۔ کئی معاہدات اور رواجی قواعد کا مجموعہ ہے لیکن چار جنیوا معاہدات ایسے ہیں جن کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ان میں پہلا جنیوا معاہدہ بری جنگ میں زخمی، بیمار یا معذور ہونے والے فوجیوں کے حقوق سے متعلق ہے جبکہ دوسرا جنیوا معاہدہ بحری جنگ میں زخمی، بیمار یا معذور ہونے والے فوجیوں کے حقوق کے بارے میں ہے۔
تیسرا جنیوا معاہدہ جنگی قیدیوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ہے اور چوتھا جنیوا معاہدہ جنگ کے دوران میں غیر مقاتلین اور عام شہریوں کے تحفظ کے لئے ہے۔ یہ چاروں معاہدات دوسری جنگ عظیم کے بعد 1949ء میں وضع کئے گئے اور ان پر پاکستان سمیت دنیا کے تمام ممالک نے دستخط کئے ہیں۔
تاریخ یہ بھی کہتی ہے کہ خلافت عثمانیہ نے بالکل ابتدائی مراحل میںIHL پر دستخط کئے تھے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ IHL کو حقیقی معنوں میں ایک بین الاقوامی قانون کی حیثیت حاصل ہے۔
مذکورہ قوانین جن نقصانات سے بچنے کا کہتی ہے یہاں انکی کچھ مثالیں دینا ضروری سمجھا ہے جیسا کہ شہری آبادی کو نقصان پہنچانے کی ممانعت، اندھا دھند حملوں (Indiscriminate Attacks) کی ممانعت، صحت اور تعلیم کی سہولیات کو نشانہ بنانا، غیر فوجی اہداف کو نشانہ بنانا، عبادت گاہوں کو بنانا، فریق مخالف کے فوجیوں کو غیر ضروری نقصان پہنچانے کی ممانعت، تناسب کا اصول، جنگ میں غیر جانبدار رہنے والے ملک کو نقصان پہنچانے کی ممانعت، قدرتی ماحول کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچانے کی ممانعت، جنگوں میں حصہ نہ لینے والے شہریوں کا تحفظ، یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے جنکا خیال رکھنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ شہری ہوابازی کے طیاروں کو اغوا کرنا، شہریوں یا مقاتلین کو یرغمال بنانا، مقاتلین پر ”دھوکہ دہی“ کے ذریعے حملہ، مقاتلین پر زہریلی گیسوں اور کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال وغیرہ۔
یہاں یہ تذکرہ ضروری ہے کہ IHL قوانین کبھی یہ نہیں کہتے اور نہ یہ انکا مینڈیٹ ہے کہ دو ممالک، مسلح گروہ یا تنظیمیں آپس میں لڑائی نہ کیا کریں۔ "مسلح گروہوں یا تنظیموں سے مراد جنکو اقوام متحدہ نے بطور جنگجو تسلیم کیا ہو۔ IHL ان کیلئے وہ قوانین/ قواعد و ضوابط طے کرتی ہے کہ لڑائیوں یا جنگوں کے دوران عام شہریوں کامذکورہ قوانین کے تحت کسی طرح کا بھی نقصان نہ ہو یا کم سے کم ہو۔یہی تو ہمارا دین اسلام بھی فرماتا ہے کہ لڑائیوں اور جنگوں کے دوران بے گناہ انسانوں کا نقصان نہ کیا جائے۔
جنگی حالات میں عوام اور عوامی تنصیبات کو تباہ کاریوں سے محفوظ رکھنے اور جنگ کے موقع پر بھی انسانی و اخلاقی اقدار کو فروغ دینے کے لئے ضروری ہے کہ جنگ سے متعلق اسلامی و بین الاقوامی قوانین کو فروغ دیا جائے۔
اس سلسلہ میں ICRC کی خدمات قابل ستائش و قابل تقلید ہیں۔ پاکستان جیسے بڑے اسلامی ممالک میں جنگی اخلاقیات سے متعلق قوانین خصوصاً اسلامی قانونِ سیر کو باقاعدہ نصاب کا حصہ بنانا چاہیئے اور اہل علم کو ان قوانین کو اپنی تحقیقی مقالات کا موضوع بنانا چاہیئے۔ موجودہ بین الاقوامی قوانین میں مزید اصلاح اور حقیقی روح کے ساتھ ان کا نفاذ ممکن بنانے کے لئے مسلمان اہلِ علم کو نہ صرف کردار ادا کرنا چاہیئے بلکہ آگے بڑھ کر اس تحریک کی رہنمائی کرنی چاہیئے، کیونکہ ان قوانین کی ترویج موجودہ دور میں انتہائی ضروری ہے اور اسی میں انسانیت کی بقا ہے۔
شریعت اسلامی نے جس طرح دیگر شعبہ ہائے زندگی کے متعلق مکمل رہنمائی فراہم کی ،اسی طرح جنگی قوانین اور اخلاقیات کو بھی ایک منظم شکل میں پیش کیا۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مزید بہتری لائے جانے لگی۔ حدیث اور فن اسماء الرجال کی طرح قانون سیر بھی اسلام کے خصائص میں سے ہے۔ سیر کی تعریف میں متقدمین آئمہ نے لکھا ہے کہ غیر مسلم چاہے جس قسم کے بھی ہوں ،ان کے ساتھ طے شدہ معاملات و معاہدات کو سیر کہا جاتا ہے،جبکہ متاخرین آئمہ اور موجودہ زمانے کے علما نے سیر کو صرف جنگی معاملات تک محدود کیا ہے۔
اب جہاں تک بین الاقوامی قوانین انسانیت کا تعلق ہے یقینا دنیا کی تاریخ میں ہزاروں یا لاکھوں کی جنگیں ہوئیں ہونگی جہاں عام لوگ، انفراسٹرکچر یا آبادیوں کو بھی نشانہ بنایا ہوگا اور مزکورہ قوانین کی خلاف ورزی ہوئی ہوگی۔ جب سے IHL قوانین بنے ہیں اب جسکی بھی جنگ ہو یا لڑائی وغیرہ۔ اگر عام آبادیوں کا نقصان ہو جاتا ہے تو ان قوانین کے تحت متاثرین جنگ اقوام متحدہ کا باقاعدہ رخ کرکے کیس بھی دائر کر سکتے ہیں یا ازالہ بھی مانگا جاسکتا ہے جیسا کہ پہلی و دوسری جنگ عظیم، افغان وار، امریکہ کا عراق پر حملہ، نائن الیون کے بعد امریکہ و اتحادیوں کا افغانستان کی سرزمین پر حملہ، یوکرائن پر روس کے حملے جیسے لڑائیوں کے دوران دیکھا گیا ہے کہ ان قوانین کی خلاف ورزی ہوئی۔
امریکہ نے ایک مرتبہ جب افغانستان میں ایک ہسپتال کو نشانہ بنایا تو اسی ہسپتال کے ڈونرز نے امریکہ پر اقوام متحدہ میں باقاعدہ کیس دائر کیا تھا۔ اسی طرح اور بھی کئی مثالیں ہوسکتی ہیں۔ انسانیت کا کم ازکم نقصانات کے حوالے سے قوانین تو موجود ہیں اب ہونا چاہئیے کہ دنیا کے تمام ممالک یا اقوام متحدہ کے رجسٹرڈ جنگجو تنظیمیں اس پر سو فیصد عمل درآمد بھی کیا کریں تاکہ دوران لڑائیوں میں انسانوں و آبادیوں کا نقصان نہ ہو یا اگر بعض اوقات ہو بھی جائے تو کم سے کم ہو۔