کام میں صنفی تفریق کیوں؟
سندس بہروز
پچھلے اتوار کو گھر کا کام کرتے ہوئے میں نے بھائی سے کہا کہ میں تھک گئی ہوں مجھے ذرا اک کپ چائے بنا کر دے۔ میری آنٹی کو میری یہ بات بہت بری لگی۔ وہ مجھے مردوں اور عورتوں کے مرتبے کا فرق بتانے لگی۔ مجھے میری ذمہ داریوں پر لیکچر دینے لگی۔ میں نے صرف ان سے اتنا کہا کہ یہ کون طے کرتا ہے کہ یہ کام مرد کا ہے اوریہ عورت کا؟ مجھے اس کا جواب معلوم تھا مگر ان میں احساس اجاگر کرنا تھا کہ یہ شعبہ آپ کا، یعنی ایک عورت ہی کا ہے۔
عجیب سی بات ہے وہ عورت جو خود ان مردوں کی خدمت کرتے کرتے بوڑھی ہو چکی ہے وہی دوسری عورت کو بھی ان کی خدمت کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس بحث کا نتیجہ آخر وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا ہے، مجھے چپ ہونا پڑا کیونکہ پدر شاہی کی ان چوکیدارنیوں سے بحث کرنے کا مطلب ہے دیوار سے سر ٹکرانا ہے یا بھینس کے آگے بین بجانا!
بات تلخ ہے مگر بات ہے سچائی کی! کیوں کام کو تقسیم کیا گیا ہے؟ بلکہ مرد اور عورت کے درمیان کیوں ہر چیز تقسیم کی گئی ہے؟ یہ رنگ مردوں کا تو یہ رنگ عورتوں کا، ایسے کپڑے مردوں کے تو ویسے کپڑے عورتوں کے، یہ نوکریاں مردوں کی اور یہ نوکریاں عورتوں کی، یہ گاڑیاں مردوں کی اور ایسی گاڑیاں عورتوں کی، یہ کام مردوں کے اور یہ کام عورتوں کے، غرض ہر چیز میں دونوں میں تفریق، جب انسان کو صرف جسمانی تفریق کے ساتھ بنایا گیا ہے تو ہمیں قدرت کا یہ عمل کیوں قبول نہیں؟
اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس سے ہم خود اپنے لئے ہی مسائل پیدا کر رہے ہیں۔
کیا عورت مرد کے کام نہیں کرتی؟
اکثر بڑی بوڑھیوں کو کہتے سنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ عورت مرد کے ساتھ مل کر گھر چلائے۔مہنگائی کے اس دور میں صرف مرد کی کمائی سے گھر نہیں چل سکتا، بھئی مرد اور عورت برابر ہیں تو عورت مرد کے شانہ بشانہ کمانے نکل پڑتی ہے۔
لیکن جب دونوں تھک ہار کر گھر واپس آتے ہیں تو مرد صاحب آرام فرمانے لگ جاتے ہیں جبکہ عورت کچن میں گھس کر کھانا بنا کر مرد کو پیش کر کے اس کے آرام میں خلل ڈالتی ہے۔
کوئی پدر شاہی کی ان چوکیدارنیوں سے پوچھے اب کہاں گئی آپ کی برابری؟ اس کے باوجود وہ یہی کہیں گی کہ بھئی وہ تھکا ہوا ہے، جبکہ عورت تو مشین ہے، وہ صبح صبح اس سے پہلے بیدار ہو کر اس کے بعد سوتی ہے، کمانے کے ساتھ ساتھ بچے بھی پالتی ہے، گھر کی دیکھ بھال بھی کرتی ہے، اس کے باوجود بھی چھوٹی سی کوتاہی پر اس کو معافی نہیں ملتی۔ عورت مرد کے کام کرے خیر ہے مگر مرد عورت کے کام کرے گا تو اس کی شان میں کمی آئے گی، ایسا کیوں؟
اس تفریق کے اثرات
ہم یہ تفریق کرتے تو ہیں مگر اس کے اثرات بھول جاتے ہیں۔ اگر عورت کو سارا دن اپنے کاموں میں مصروف رکھنا ہے تو وہ اپنے بچوں کی تربیت نہیں کر پائے گی۔ پھر یہی بڑی بوڑھیاں کہتی ہیں کہ تعلیم و تربیت سے تربیت ختم ہو چکی ہے صرف تعلیم باقی رہ گئی ہے۔ ذہنی الجھنوں کی شکار ایک مصروف ماں کیا خاک اپنے بچوں کی تربیت کر پائے گی۔ وہ صرف پرورش کر کے خود کو دلاسہ دیتی ہے کہ وہ اپنا کام پورا کر رہی ہے۔ اس کے پاس اصل میں وقت کی کمی ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں انسانوں کی کوانٹٹی میں تو اضافہ ہو رہا ہے مگر کوالٹی کم ہو رہی ہے۔
شاید اب وقت آن پہنچا ہے کہ ہم اپنی سوچ میں تبدیلی لے کر آئیں۔ اپنی نسلوں کے بارے میں سوچیں اور ان کو وقت دیں۔ اچھی تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت کریں اور دونوں اصناف کی برابری کا درس عام کریں، شاید پھر بطور قوم ہم ترقی کر سکیں۔
آپ کا کیا خیال ہے؟
سندس بہروز ٹیچنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں، ریڈیو شوز کرتی ہیں اور صنفی موضوعات پر بلاگ اور شارٹ اسٹوریز بھی لکھتی ہیں۔