80 سالہ یاسمین بی بی: ‘ خوشی ہے کہ لوگ میرے ہاتھوں کی بان کو پسند کرتے ہیں’
شمائلہ افریدی
خیبر پختونخوا کے زیادہ تر علاقے اونچی پہاڑیوں پر مشتمل ہے جہاں ان علاقوں میں سخت چٹان موجود ہے تو وہی حسن بھی کمال کا رکھتے ہیں جبکہ یہ سوچ کر انسان کا ایمان مزید پختہ ہوجاتا ہے کہ دنیا کے ہر کھونے میں آباد لوگوں کو اللہ تعالیٰ زرق دیتا ہے۔
ان پہاڑیوں میں بسنے والے لوگ دور جدید کے سہولیات سے محروم ہونے کے باوجود صدیوں سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ کچھ علاقے تو ایسے بھی ہیں جہاں لوگ نہ تو اپنے ملک کے بارے میں علم رکھتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنی بنیادی حقوق سے خبر ہے۔
80 سالہ باہمت خاتون یاسمین بی بی بھی ان افراد میں شامل ہیں جو سخت محنت مشقت کرکے اپنے لئے دو وقت کی روٹی کماتی ہے۔
سب ڈویژن حسن خیل بوڑہ گاؤں میں رہائش پذیر یاسیمن بی بی گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنے ہاتھوں چارپائی کا بان بنا کر فروخت کر رہی ہے، جب میں نے اس خاتون کے بارے میں سنا تو خواہش ہوئی کہ ان سے مل لوں، ان کی کہانی سنو، ماضی میں ان کا گزر بسر، لوگوں کے کام کاج اور ان کے تجربات کو اپنے قلم میں بند کرو۔
وہ دن آگیا جب میں ان سے ملنے گئی، یاسمین بی بی ایک چھوٹی سی چارپائی پر بیٹھی بان بنا رہی تھی، عمر کے حساب سے ان کو کام کرتے ہوئے دیکھا تو حیرانی ہوئی کیونکہ وہ انتہائی ہنر مندی سے اپنا کام کر رہی تھی۔
میں نے بغیر انتظار کئے ان سے سوالات کرنا شروع کئے اور وہ میرے ہر سوال کا جواب مسکراہٹ سے دے رہی تھی لیکن مجھے ان کا یہ جواب بہت اچھا لگا کہ دوسرے کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے کہ انسان محنت کرکے خود کمانا شروع کرے، میں نے اپنی پوری زندگی سخت محنت ہے اور جب تک میرے جسم میں دم ہے یہ محنت جاری رکھوں گی۔
انہوں نے بتایا کہ وہ مقامی پودے ‘ مزرری’ سے بان بنا کر فروخت کر رہی ہیں جس کے لئے وہ صبح سویرے نکل کر قریبی پہاڑ جاتی ہے جہاں وہ مزری کو کاٹ کر گھر لاتی ہے اس کے بعد دوہ دن تک وہ گیلے کپڑے میں نرم ہونے کے بعد بان بنانے کے قابل ہوجاتے ہیں۔
‘ بان سے چارپائی بنانا میرے مشکل کام ہے، ایک چارپائی کے لئے بان بنانے میں میرے کئی روز لگ جاتے ہیں تاہم مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ لوگ میرے ہاتھوں کے بان کو پسند کرتے ہیں لیکن جو پیسے ملتے ہیں ان پر گزرا نہیں ہوتا۔’
ان کے بقول وہ بازار نہیں جاسکتی جہاں کسی دکاندار پر وہ بان فروخت کرسکے اور انہیں اپنی محنت کا اچھا معاوضہ ملے۔
وہ کہتی ہیں کہ قبائلی خواتین میں بہت ٹیلنٹ موجود ہے تاہم مناسب مواقع نہ ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی محنت کا پھل نہ مل سکا، میں نے اپنی زندگی بسر کر لی اب چاہتی ہوں کہ ایمان کی موت نصیب ہو۔
انہوں نے اپنی ماضی کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارا دور بہت اچھا تھا، کام سخت تھے لیکن لوگ خوش تھے، ان کی زندگی میں رنگ موجود تھا لیکن آج کے دور میں سہولیات زیادہ ہے لیکن لوگوں کے دل زندہ نہیں ہے۔