خواتین صحافیوں کو دفاتر اور فیلڈ میں صنفی تعصب اور ہراسانی کا سامنا
عارف خان
پاکستان میں کام کرنے والے بیشر جگہوں میں خواتین کو جنسی طور پر ہراسانی، استحصال اور تفریق کے بیشتر واقعات سامنے آتے ہیں لیکن بعض اوقات سینیئر مینجمنٹ کی جانب سے ان مسائل کو نظر انداز کیا جاتا ہے جبکہ اگر ایک طرف خواتین پر خاموش رہنے کے لئے دباؤ ڈالا جاتا ہے تو دوسری جانب خواتین خاندان اور معاشرتی دباؤ کی وجہ ان واقعات پر خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ خواتین کو مخلتف جہگوں پر کام کرنے کے دوران مشکلات کا سامنا پڑتا ہے جس میں دفتر کے ساتھیوں کی جانب سے ہراسمنٹ، صنفی تعصب اور دیگر مسائل شامل ہیں۔
ان خواتین کے مطابق ضروری نہیں کہ برا رویہ صرف جنسی ہو حقیت میں بعض اوقات مرد باسز کی روزمرہ حرکات بھی خواتین ماتحتوں کے لیے کام کا ہتک آمیز ماحول پیدا کر دیتی ہیں جبکہ پاکستان کے روایتی طور پر مردوں کے زیر تسلط نظام میں خواتین کو گھر اور دوسری جگہوں پر ثقافتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاہم جب بات کسی پیشے کو اختیار کرنے کی ہو تو پھر مشکلات میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے لیکن پھر بھی پاکستانی خواتین نے ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔
خیبر پختونخوا میں خواتین دوسرے صوبوں کی طرح بہت سے پیشہ ورانہ شعبوں کا انتخاب کر رہی ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں کئی خواتین نے ہمیشہ سے مردوں کا پیشہ سمجھے جانے والے شعبے صحافت میں بھی اپنی کامیابیوں کا لوہا منوایا ہے تاہم ان کے مطابق خواتین صحافیوں کو فیلڈ اور دفاتر میں حراسانی کا سامنا کرناپڑتا ہے۔
13 جنوری 2023 کو جیو نیوز کی رپورٹر شیبا حیدر کے ساتھ دوران کوریج ان کو فرائض کی ادائیگی سے روکنے کا واقعہ پیش آیا۔
شیبا حیدر کے مطابق دفتر کی جانب سے انہیں پولیو کوریج کیلئے بھیجا گیا، وہ دفتر کے قریب میں واقع کنٹونمنٹ بورڈ جنرل ہسپتال گئیں جبکہ اسپتال کے ایم ایس سے باقاعدہ طور پر کوریج کی اجازت لی جنہوں نے ہسپتال کے ایک ملازم کو ان کے ساتھ بھیجا۔
انہوں نے بتایا کہ وہ ہسپتال کے فرسٹ فلور پر بچوں کے وارڈ میں گئی تاکہ بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے اس عمل کی فوٹیج بنا سکے تاہم وہاں پر کوئی پولیو ٹیم موجود نہیں تھی پوچھنے پر بتایا گیا کہ پولیو کی ٹیم اپنے دفتر میں بیٹھی ہے۔
شیبا کا کہنا تھا کہ پولیو سٹاف سے ملنے ان کے دفتر گئی تاکہ انہیں بتا سکیں کہ پولیو کی کوریج کرنی ہے اس لئے کسی کو میرے ساتھ بھیج دیں تاکہ بچوں کو قطرے پلائے جانے کی فوٹیج بنائی جاسکے تاہم جیسے ہی وہ پولیو سٹاف کے پاس گئی اور ان کو یہ بات کہی تو وہاں موجود ایک خاتون نے کہا کہ آپ کو کس نے اجازت دی ہے کوریج کرنے کی، آپ کیوں یہاں آئی ہیں، برا بھلا کہنا شروع کردیا اور دفتر سے باہر نکال دیا۔
شیبا کا کہنا ہے کہ انہوں نے امیونائزیشن پر توسیعی پروگرام (ای پی آئی) کے کوآرڈنیٹر شاداب کو فون کرنے کے لیے موبائل نکالا اور ان کو فون کر ہی رہی تھی کہ اس دوران مذکورہ خاتون آفیسر دوبارہ آئیں اور انہیں کہا کہ آپ ویڈیو کیوں بنا رہی ہیں اور ان سے موبائل چھین کر زمین پر گرادیا جس سے ان کا موبائل ٹوٹ گیا۔
شیبا حیدر کے بقول اس صورتحال سے وہ کافی پریشان اور ڈری ہوئی تھی کیونکہ بہت سے لوگ بھی وہاں جمع ہوگئے تھے جبکہ مذکورہ خاتون آفیسر نے مجھ پر چیخنا شروع کر دیا کہ اس کو نیچے لیکر جاو ورنہ میں اس کو مارنا شروع کر دوں گی جس کے بعد وہ اپنے دفتر آگئی اور اپنے ساتھیوں کو تمام واقعے سے آگاہ کیا جبکہ ای پی آئی کی کوارڈنیٹر شاداب کو فون کرکے تمام معاملے سے آگاہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اپ میرے دفترآ جائیں یہاں معاملے کو حل کرتے ہیں۔
شیبا کا کہنا تھا کہ مجھے زیادہ فکر اپنے موبائل کی تھی کیونکہ اس میں میرا تمام ڈیٹا موجود تھا میرے سورسز کے نمبرز ، میری صحافتی کیئرر کے دوران بنائی گئی رپورٹس وہ سب اس موبائل میں موجود تھیں۔
اس واقع کے بعد پشاور پریس کلب اور خیبر یونین آف جرنلٹس کے صدور نے رابطے کئے اور اس واقع کے حوالے سے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کے ساتھ اس معاملے پر بات بھی کی گئی اور پھر باقاعدہ طور پر ڈی ایچ او اور ان کا سٹاف پشاور پریس کلب آیا اور اس معاملے پر معافی مانگی۔
پشاور پریس کلب کے مطابق پریس کلب کی 22 ممبران خاتون صحافی ہیں جبکہ 26 خواتین صحافی خیبر یونین آف جرنلٹس کی ممبرز ہیں۔
خواتین کو کام کی جگہوں پر ہراساں کئے جانے سے متعلق خیبر یونین آف جرنلسٹس کے صدر ناصر حسین کا کہنا تھا کہ خیبر یونین کو ہراسمنٹ سے متعلق کہنا تھا کہ کچھ خواتین صحافی ہیں جن کو اس قسم کے مسائل کا سامنا ہے مگر وہ تحریری طور پر درخواست نہیں دینا چاہتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ ہمارے معاشر ے میں خواتین صحافی کھل کر سامنے نہیں آ سکتی، ان کو نہ صرف اپنی فیملی بلکہ معاشرہ میں بدنامی کا بھی ڈر ہوتا ہے اس لئے وہ اس قسم کے معاملات پر خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔ یونین کی سطح پر ہراسمنٹ سے متعلق آگہی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلہ میں نہ ہی یونین اور نہ پریس کلب کی سطح پر کوئی اقدامات کئے گئے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ قانون میں موجود ہے کہ سرکاری اور پرائیویٹ دونوں اداروں میں ہراسمنٹ سے متعلق کمیٹیاں بنائی جائیں گی اور قانون اس معاملہ میں بلکل واضح ہے۔
سیکرٹریٹ صوبائی محتسب کے اعداد وشمار کے مطابق سال 2019 سے 2022 تک 115 کیسسز ہراسمنٹ کے رپورٹ ہو چکے ہیں جبکہ 955 کیسز جائیداد سے متعلق رجسٹراڈ کئے گئے ہیں، اسی طرح سائبر ہراسمنٹ کے 78 کیسسز اور صنفی تشدد کے 78 کیسسز رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔
صوبائی محتسب رخشندا ناز سے جب ہراسمنٹ کے حوالہ سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک کسی بھی جرنلسٹ کی طرف سے ہراسمنٹ کا کیس نہیں آیا ہے۔ اگر خواتین صحافیوں پر کوئی حملہ ہوتا ہے تو وہ صوبائی محتب کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے جبکہ ہمارے پاس کام کی جگہوں پر ہراسمنٹ کا دائرہ اختیار ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ خواتین ہراسمنٹ کا ذکر کرتی ہیں مگر وہ کسی شخص کا نام نہیں لیتی ہیں اور نہ ہی کسی نے کبھی کوئی شکایت کی ہے۔
آج ٹی وی کی بیور چیف فرزانہ کا کہنا تھا کہ جس طرح کے معاشرے میں ہم رہتے ہیں اور خصوصاً خیبر پختونخوا کی بات کی جائے تو خواتین پر ایک بوجھ ہوتا ہے جب وہ گھر سے نکلتی ہیں اور گھر واپسی تک سے لیکر گلی محلہ تک بہت سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، گھر والوں کا اعتمادبرقرار رکھنا ہے، اپنے دفتر میں بھی لوگوں کی نظروں میں اچھا رہنا ہوتا ہے، دوسری ایک اور چیز کہ معاشرہ میں خواتین کو سکھائی جاتی ہیں کہ مرد کو سہارا ضرور چاہیے، تو ایک مسئلہ یہ بھی ہو جاتا ہے اگر اپ رپورٹنگ کی فیلڈ میں جب ہوتے ہیں تو ان کو لگتا ہے کہ مرد ہی ان کا سہارا ہے، اس میں بھی بہت زیادہ مسائل ہو جاتے ہیں.
ان کے طابق ہر وقت کسی نہ کسی کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے چاہے وہ ساتھی رپورٹر ہویا بیوروچیف ہو اور ہر وقت کوشش ہوتی ہے کہ کہی ایسا نہ ہو جائے جس کی وجہ سے کسی مسئلے میں پڑ جائیں، یہی وجہ ہوتی ہے کہ اپ کے ساتھی رپورٹر کو طاقت ور بنا دیتی ہے، جس کی وجہ سے حسد، مقابلہ یا ان کو مواقع زیادہ ملتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ خواتین کو سوفٹ بیٹ دی جاتی ہیں، سوفٹ بیٹ سے مراد کہ ایجوکیشن، صحت یا این جی اوز یا پھر بہت زیادہ کرلیا تو کورٹ بیٹ کرلیں، کرائم کی بیٹ یا جن علاقوں میں آپریشن ہوتے ہیں وہاں پر خواتین جا کر کوریج نہیں کر سکتی، فیملی کی طر ف سے بھی مسائل ہوتے ہیں اگر غیر شادی شدہ ہوں تو ممکن ہی نہیں ہوتا کہ باہر جا کر ایس طرح کی نیوز کور کریں اور اگر شادی شدہ ہیں تو پھر گھر اور بچوں کا ایک پریشر ہوتا ہے کہ اپ نے گھر چلنا ہے، ان تمام مسائل کی وجہ سے خواتین کی رفتار کم ہو جاتی ہیں۔
ان کے بقول جیلسی فیکٹر بہت زیادہ ہو جاتا ہے اور پھر وہ اپ کو نقصان پہنچانا شروع کرتے ہیں جس میں اپ کے کردار پر سوالات اٹھاتے ہیں جو عام طور پر خواتین کے ساتھ یہ مسئلے ہو جاتے ہیں اور ان کو گھروں میں بٹھا دیا جاتا ہے، اگر ان مسائل پر توجہ دی جائے تو خواتین نہ صر ف اگے جا سکتی ہیں بلکہ اچھے عہدوں پر بھی کام کرسکتی ہیں۔
اس سلسلہ میں روزنامہ آج کے ساتھ بطور سب ایڈیٹر کام کرنے والی صحافی رفعیہ خان سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک ان کی بات ہے تو انہوں نے جتنے بھی اداروں کے ساتھ کام کیا ہے اج تک انہیں ہراسمنٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
انہوں نے بتایا کہ دیگر خواتین صحافیوں کو اس سلسلہ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ میڈیا آرگنائزیشن میں خواتین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، نیوز پیپرز میں تو بلکل نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ ٹی وی چینلز میں بھی بعض چینلز میں صرف ایک خاتوں ہی بطور صحافی کام کر رہی ہیں جہاں ان کا مقابلہ مرد صحافیوں سے ہوتا ہے ان کا کہنا تھا کہ اگر کبھی پریس کانفرنسز میں خواتین صحافی چلی جاتی ہیں تو ان کو سوال کرنے نہیں دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں کام کی جگہوں پر ہراسمنٹ سے متعلق واضح قانون موجود ہے لیکن اگاہی، معاشرتی اور خاندانی پابندیاں اور بدنامی کے ڈر کے باعث بیشتر خواتین شکایات درج نہیں کر پاتی ہیں۔ 2010 میں پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمنٹ آف وومن ایٹ ورک پلیس ایکٹ 2010 میں پاس ہو چکا ہے جس کے مطابق قانون کے پاس ہونے کے بعد ضروری ہو گا کہ ہراسمنٹ واقعہ کے 30 دن کے اندر اندر ہر ایک ادارہ میں انکوائری کمیٹی بنائی جائے گی جو کہ موصول ہونے والی شکایات کا جائزہ لے گی۔
پشاور کے بیشتر میڈیا ارگنائزیشن میں ہراسمنٹ سے متعلق کمیٹیاں موجود نہیں ہیں، جیو ٹی وی اور ایکسپریس کے علاوہ دیگر اداروں میں کمیٹیاں بیورو کی سطح پر موجود نہیں ہیں، میڈیا ارگنائزیشن میں کام کرنے والے صحافیوں کے مطابق اگر ہراسمنٹ کا کوئی کیس رپورٹ ہوتا ہے تو اس کے لئے باقاعدہ طور پر ہیڈ آفس سے کمیٹی بنائی جاتی ہے جو کہ یہاں پر آکر باقاعدہ معاملہ کی تحقیقات کرتی ہے۔
نوٹ: یہ سٹوری پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) فیلوشپ پروگرام کا حصہ ہے۔