تھانوں میں یوٹیوبرز کی ویڈیوز کے خلاف کیس، کیا اظہار رائے کی آزادی متاثر ہوسکتی ہے؟
رفاقت اللہ رزڑوال
پشاور ہائی کورٹ میں سوشل میڈیا ایکٹیویسٹس کی ملزمان سے انٹرویو پر پابندی لگانے کیلئے رٹ دائر کر دی گئی، جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ عدالتی فیصلے سے قبل ملزم کو سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کی نظروں میں مجرم ثابت کرنا عدالتی فیصلوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
دوسری جانب دائر کردہ رٹ کو سوشل میڈیا کے کارکنوں نے اظہار رائے پر پابندی قرار دے دی جبکہ صحافیوں نے اس کا خیرمقدم کیا۔
اس حوالے سے پشاور ہائی کورٹ کے وکیل جابرخان نے ٹی این این کو بتایا کہ انہوں نے یہ رٹ آئینی حقوق کی پامالی کی بنیاد پر دائر کی ہے۔ انہوں نے اس درخواست میں الیکٹرانک میڈیا پر نظر رکھنے والے ادارے پمرا حکام، چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا، انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختونخوا اور سیکرٹری اطلاعات خیبر پختونخوا کو فریق بنایا ہے۔
جابر خان نے اپنی رٹ میں کہا ہے کہ آئین آرٹیکل 3 ملزم کو ہر قسم کے استحصال سے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے جبکہ آرٹیکل 4 کے مطابق ہر شہری کے ساتھ قانون کے مطابق برتاؤ کیا جائے گا، اسی طرح آئین آرٹیکل 10 اے کے تحت فئر ٹرائیل کا ضمانت بھی دیتا ہے اور ٹرائیل کے بعد عدالت فیصلہ جاری کریں گی۔
ان کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 13 کے مطابق کوئی بھی شخص یا ادارہ کسی بھی ملزم کو مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ اپنے خلاف گواہی دے جبکہ بعض افراد کی جانب سے ملزم سے اپنی جرم منوانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ "ہم اظہار رائے کی آزادی کے بالکل خلاف نہیں مگر بات آئین او قانون پر عمل درآمد کی ہے، مثلاً آرٹیکل 19 کے تحت کسی کی عزت اور اخلاقیات کو نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا مگر اس قسم کے انٹرویوز میں ایسا لگ رہا ہے کہ ملزم نہیں ایک مجرم سے بات ہوتی ہے۔”
انہوں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ پیمرا ملزمان کی انٹرویو پر پابندی لگا دیں جبکہ وفاقی اور صوبائی عدالتیں ملزمان کی انٹرویو آن ائیر کرنے پر کاروائی کریں، ہر قسم ملزم یا مجرم کو میڈیا رسائی نہ دی جائے جبکہ ملزمان کی انٹرویوز کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا جائے۔
مین سٹریم میڈیا میں کام کرنے والے صحافی دائر کردہ رٹ کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اکثر سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ صحافتی اصولوں، معاشرے کی حساسیت اور ملزم کی حقوق سے لاعلم ہوتے ہیں جس کا پروفیشنل صحافیوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے سینئر صحافی اور خیبرنیوز ٹی وی کے میربان شمس مومند نے ٹی این این کو بتایا کہ پولیس کسٹڈی میں انٹرویو لینا تفتیش اور عدالتی کاروائیوں پر اثرانداز ہونے کے مترادف ہے کیونکہ جب تک عدالت فیصلہ نہ دیں تو عوام کی نظروں میں ملزم کو مجرم بنانا غیرقانونی اور غیراخلاقی حرکت ہے۔
"میرا خیال ہے جو سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ انٹرویوز لیتے ہیں شائد انہیں علم بھی نہ ہو کہ یہ ایک غیرقانونی اور غیراخلاقی حرکت ہے، یہ بھی علم نہ ہوگا کہ اس ریکارڈ شُدہ انٹرویو کے اثرات عام معاشرے اور ملزم کا عدالت کی جانب سے بری ہونے کے بعد انکی زندگی پر کیا ہوں گے؟”
شمس نے اظہار رائے کی آزادی کو متاثر ہونے کے سوال پر ایک معروف مخاورے کا حوالہ دے کر کہا ‘آپ کی آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں سے میری ناک شروع ہوجاتی ہے’، جہاں تک آپ آئین، قانون اور روایات کے دائرے میں رپورٹنگ کرتے ہے اور اس پر پابندی لگا دی جائے تو یہ غیر قانونی ہے لیکن جب آپ دائرے سے باہر نکل گئے تو پھر آپ کی آزادی ختم ہوجاتی ہے۔
ان کے بقول اگر یہ اظہار آزادی ہوتی تو پھر عدالتوں کے اندر بھی کیمرے نصب ہونے جاہیئے تھے اور ساری کارروائی براہ راست ٹیلی کاسٹ ہوتی لیکن تحریر و تقریر کی آزادی کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ پروفیشنل صحافیوں کیلئے بھی مسائل کھڑے کر دیتے ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ چند ادارے انہیں ان مقامات تک رسائی دیتے ہیں جہاں پر صحافیوں کو بھی رسائی حاصل نہیں ہوتی۔
واضح رہے کہ حال ہی میں ضلع لوئر دیر میں بیٹے کے ہاتھوں والدین پر گولی چلانے والے پولیس کی تحویل میں بچے کی انٹرویو سوشل میڈیا کی زینت بن چکی ہے جس پر سوشل میڈیا کے ذریعے سخت تنقید کی جا رہی ہے اور سوال اُٹھایا جاتا ہے کہ بچے کے چہرے کو کیوں ظاہر کیا گیا؟
فیس بک اور یوٹیوب پر لاکھوں فالوورز رکھنے والے سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ یوسف جان اتمانزئی نے ٹی این این کو بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا پر بے باکی کی انتہا ہے، چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام موجود نہیں مگر اس کا ہرگز یہ جواز نہیں کہ اس پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے کسی کی انٹرویو لینے پر پابندی عائد کی جائے البتہ تمام سٹیک ہولڈرز بیٹھ کر قوانین طے کریں اور اس پر عمل درآمد یقینی کیا جائے۔
یوسف جان کے مطابق حال ہی میں انہوں نے تھانے کے اندر اس بچے کی انٹرویو لی تھی جس نے اپنے والدین کو قتل کیا تھا، اس انٹرویو میں بچے سے اس انتہائی اقدام اٹھانے کی وجوہات پوچھیں گئے ہیں جس کی وجہ پب جی گیم تھا، اس میں ہم نے یہ پیغام دیا تھا کہ والدین بچوں کی تربیت پر توجہ دیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ مسائل اجاگر نہیں کیے جائے تو حل کیسے ہوں گے؟
یوسف کے بقول وہ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات میں بطور صحافی کئی عرصہ کام کرچکے ہیں جبکہ کسی ملزم سے انٹرویو لیتے وقت وہ صحافی اصول کو اپناتے ہوئے ان کے حقوق کا برابر خیال رکھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ انٹرویو ملزم کی تفتیش پر نظر انداز نہ ہو۔
یاد رہے کہ 17 ستمبر 2021 کو محکمہ اطلاعات و تعلقاتِ عامہ خیبر پختونحوا نے اعلامیہ جاری کیا تھا کہ محکمہ اطلاعات کے سرکاری کارڈ نہ رکھنے والے صحافی یا سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو کسی بھی سرکاری آفیسر کی انٹرویو لینے کی اجازت نہیں ہوگئی جس پر ضلع مردان کے ڈپٹی کمیشنر نے تمام وفاقی و صوبائی اداروں کے سرکاری افسران کو انٹرویو نہ دینے کے ہدایات جاری کئے تھے۔.
اس کے علاوہ جنوری 2020 میں خیبرپختونخوا کے پولیس حکام نے پولیس اہلکاروں کو متنازع ہونے سے بچنے کیلئے تمام واٹس ایپ گروپ چھوڑنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد کافی تعداد میں اہلکاروں نے واٹس ایپ چھوڑے تھے تاہم اب بھی کافی تعداد میں پولیس اہلکاروں کے نمبرز مختلف واٹس ایپ گروپ میں موجود ہیں۔