خیبر پختونخوا میں جنگلی حیات کی معدومیت، وجوہات کیا ہیں؟
رفاقت اللہ رزڑوال
خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں دہشتگردی کے خلاف کاروائیوں کے دوران کئی انواع و اقسام کے جنگلی حیات معدوم ہوچکے ہیں جس سے قدرتی ماحولیاتی نظام متاثر ہوچکا ہے جبکہ ماحولیاتی اور جنگلی حیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگلی حیات (نباتات اور جانور) قدرت کی طرف سے زمین پر متوازن زندگی کیلئے ایک نعمت ہے اگر یہ نظام متاثر ہوا تو عوام اور جانوروں کو قحط کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے ہر سال 3 مارچ کو دنیا بھر میں جنگلی حیات کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا امسال موضوع جنگلی حیات کی تحفظ اور شراکت داری ہے۔
اقوام متحدہ کا دعویٰ ہے کہ دنیا بھر میں 10 لاکھ تک نباتات اور جنگلی جانوروں کے اقسام معدوم ہونے کا سامنا کر رہی ہے جس سے عام لوگوں کے خوراک، ادویات، توانائی، تفریح اور انسانی بہبود متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں گزشتہ دو دہائیوں سے جاری فوجی کاروائیوں نے جنگلی حیات کو متاثر کرکے جانور آبادی کی طرف آ رہے ہیں جس نے عوام کے کافی فصلات کو اپنی خوراک کا ذریعہ بنایا ہے۔
ضلع مہمند کے علاقہ خٹکی شریف کے رہائشی شاہ نواز ترکزئی نے ٹی این این کو بتایا کہ ہمارے علاقے میں فوجی آپریشن کے بعد جنگلی حیات نے آبادی کا رخ کرلیا، ان جنگلی حیات میں ثور، لومڑی اور گیڈر شامل ہیں جو اپنے خوراک کے لئے مکئ کی فصل کو توڑتے ہیں جس کے رد عمل میں زمینوں کے مالکان اسے فائر کرکے مار دیتے ہیں۔
شاہ نواز کے بقول جنگلی حیات نے میرے ذاتی مکئ کی فصل کو کافی نقصان پہنچایا ہے اور یہ سلسلہ گزشتہ سات سالوں سے جاری ہے جس کی بنیادی وجہ پہاڑوں پر فائزنگ اور آپریشن ہے اس لئے وہ ڈر کی وجہ سے آبادی میں آتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جب یہ جانور آبادی میں مسائل پیدا کرتے ہیں تو لوگ انہیں مارتے ہیں اور جب ہم صبح دیکھتے ہیں تو تین چار ثور کھیتوں میں مرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی زمانے میں علاقے کے عوام پالتو کتوں کے ذریعے جنگلی جانوروں کو بگاتے تھے تاہم اب گھروں میں کتے پالنے کا رواج بھی ختم ہوگیا ہے تو لوگ دوسرے طریقوں سے جانوروں کو ختم کرتے ہیں ، دوسرا یہ کہ ہمارے علاقے میں وہ درخت بھی ختم ہوگئیں ہیں جن پر جنگلی پرندوں کا بسیرا ہوا کرتا تھا، اب چونکہ لوگ کمرشل سطح پر سفیدے کی درختیں اُگاتے ہیں جس پر صرف کوّے بیٹھتے ہیں۔
جنگلی حیات کی اہمیت
ماحولیات کے محقق اور وائلڈ لائف ڈاکومنٹری میکر سید حسنین رضا کہتے ہیں کہ ہمارے زندگی کا انحصار قدرتی ماحولیاتی نظام یا نیچرل ایکو سسٹم پر ہوتا ہے اور یہ نظام تب تک ہی قائم رہ سکتا ہے جب جنگلی حیات زندہ رہے۔
سید حسنین کے مطابق ایکو سسٹم مٹی، پانی، ہوا اور درجہ حرارت سے مل کر بنتا ہے، مٹی، ہوا اور درجہ حرارت کا ملاپ سبزہ، پھل اور پھولوں کی شکل میں پیدا ہوتا ہے جبکہ کبھی کبھار یہ گوشت کی شکل میں بھی نظر آتا ہے۔
حسنین کہتے ہیں جنگلی حیات میں فوڈ چین کا بڑا ذریعہ شیر، چیتے، جنگلی کتے اور تیندوے وغیرہ ہوتے ہیں جو ہرن، بھالو، زرافہ، بھینسوں اور دیگر گھاس کھانے والے جانوروں کو کھا کر ان کی آبادی کو قابو کرتے ہیں، اگر اس نظام سے شکار کرنے والے جانوروں کو نکال دیا جائے تو شکار ہونے والے جانوروں کی تعداد بڑھ جائے گی اور امکان ہے کہ انہیں قحط کا سامنا ہوگا۔
"اب چونکہ جنگلی حیات کے ساتھ ماحول منسلک ہوتا ہے جس کا فائدہ انسان اُٹھا رہا ہے اگر یہ ایکو سسٹم متاثر ہوجائے تو نہ صرف جنگلی حیات متاثر ہوں گے بلکہ انسان بھی نقصان اُٹھا سکتے ہیں۔”
انہوں نے جنگلات کی کٹائی کو بھی ایک مسئلہ قرار دے کر کہا کہ خیبرپختونخوا کے ضلع سوات میں ٹمبر مافیا جنگلات کی کٹائی میں مصروف رہتے ہیں جب جنگلات ختم ہوجائے تو اس میں پلنے والے جانور نیچھے آبادی کی طرف آئیں گے اور شکار کیلئے مال مویشیوں پر حملہ کریں گے جس کے ردعمل میں عام لوگ اُنہیں مارنے کی کوشش کریں گے تو یہ جنگلی حیات کے ساتھ جنگ کی صورت اختیار کرجائے گی۔
حسنین کہتے ہیں کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ جنگلی حیات کا تحفظ کیا جائے تاکہ اس سے جنگلی حیات بھی زندہ رہے اور اسی طرح سارا نظام بھی متوازن رہے گا۔
یاد رہے کہ جنگلی حیات کی تحفظ بارے عوام میں شعور اجاگر کرنے اور تفریح کیلئے خیبرپختونخوا حکومت نے پشاور میں سال 2016 میں پاکستان کا سب سے بڑا چڑیا گھر تعمیر کیا ہے جس میں 160 اقسام کے جانور اور 1200 تک پرندے موجود ہیں۔
پشاور چڑیا گھر کے ڈپٹی ڈائریکٹر حسینہ امبرین کے مطابق جنگلی حیات زمینی نظام کو متوازن رکھنے کیلئے قدرتی وسیلہ ہے اور جانوروں سے محبت کی خاطر انہوں نے سالانہ پیکیج مقرر کیا ہے جس کی سالانہ فیس پانچ ہزار روپے ہوتی ہے۔