جیل بھرو تحریک سے انتخابات تک، کب کیا ہوا؟
عصمت خان
سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے گزشتہ روز خیبر پختونخوا اور پنجاب میں 90 دنوں میں انتخابات کرانے کے فیصلے سے ملک میں ایک بار پھر سیاسی ماحول گرم ہوگیا ہے جبکہ عدالت کے فیصلے سے حکمران قیادت پی ڈی ایم اور اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف دونوں بظاہر مطمئن نظر آرہے ہیں اور دونوں دھڑوں نے انتخابات کے حوالے سے سر جوڑ لئے ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جیل بھرو تحریک معطل کرنے کا اعلان کرکے اپنی نظریں نئے انتخابات پر جمادیں، ایک طرف اگر چہ خیبر پختونخوا میں انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سوشل پر پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی جیت کا سماں ہےتاہم دوسری جانب تحریک انصاف کے جیل بھرو تحریک کے زخم ابھی تازہ ہے کیونکہ یہ تحریک نہ صرف بری طرح ناکام ہوئی بلکہ کارکن اس روز گرفتاری کی بجائے صرف سوشل میڈیاکی حد تک محترک رہے۔
واضح رہے کہ کچھ دن قبل پاکستان تحریک انصاف کے لیڈر شپ نے جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا تھا جو کہ صرف سوشل میڈیا کی نذر ہوا تھا اور کسی بھی لیڈر نے خیبر پختونخوا میں گرفتاری نہیں دی تھی۔
پاکستان مسلم لیگ خیبر پختونخوا کے ترجمان اور سابق رکن صوبائی اسمبلی اختیار ولی کا کہنا ہے کہ جنہوں نے عمران خان کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کا دعویٰ کیا تھا وہ پولیس کی جانب سے پرامن رضاکارانہ گرفتاری دینے کے متعدد اعلانات کے باوجود جیلوں کی گاڑیوں کے قریب پہنچنے سے بھی ڈرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ پولیس پشاور، سوات، دیر، ڈیرہ اسماعیل خان، مردان اور خیبر پختونخوا کے دیگر شہروں کی سڑکوں اور گلیوں میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو میگا فون کے ذریعے فون کر رہی ہے تاکہ انہیں جیل بھرو تحریک میں سہولت فراہم کی جا سکے لیکن ان میں سے کوئی بھی رضاکارانہ طور پر آگے نہیں آیا جبکہ گرفتاری کے بجائے سوشل میڈیا پوسٹس کے لیے پولیس کی گاڑیوں کے ساتھ سیلفی لینے میں مصروف رہے۔
اختیار ولی کے بقول پی ٹی آئی کی سرکس کمپنی نے ان شہروں میں کارکنوں کو جیل بھرو تحریک کے لیے قائل کرنے اور نکالنے کی بھرپور کوششیں کیں لیکن اس میں بری طرح ناکامی ہوئی کیونکہ کے پی کے عوام صوبے میں گزشتہ نو سالہ حکمرانی کے دوران ان کی ناقص کارکردگی اور ان کے مذموم نعروں سے واقف تھے۔
اختیار ولی کا مزید کہنا تھا کہ عمران کے وفادار جیل بھرو تحریک کے اونچے نعرے لگا رہے ہیں جبکہ گرفتار کارکنوں کے اہل خانہ نے 24 گھنٹے میں ان کی بازیابی کے لیے درخواست دی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عمران خان کی ناپختہ پالیسیوں اور یو ٹرن نے ملک کو سیاسی اور معاشی بحران میں دھکیل دیا، یہ بات ان کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ پہلے پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی نے استعفیٰ دیا اور بعد میں دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کیں اور اب دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اپنے منحرف کارکنوں اور رہنماؤں کو خوش کرنے کے لیے، جو کے پی اور پنجاب اسمبلیوں کی قبل از وقت تحلیل کے بعد بے چین تھے، جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا لیکن فلاپ شو کے بعد مایوسی ہوئی۔
ادھر سابق صوبائی وزیر اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما واجد علی خان نے جیل بھرو تحریک کے اعلان کو عمران خان کا محض سیاسی سٹنٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عمران کے نادان سیاسی فیصلوں کی وجہ سے پی ٹی آئی کے پاس اپنے ناراض سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کو منانے کے لیے بظاہر کچھ نہیں بچاتھا سوائے خیبر پختونخوا اسمبلی کو تحلیل کرنے کے جہاں پی ٹی آئی کو دو تہائی اکثریت حاصل تھی۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کارکنان اور رہنما جیل بھرو تحریک کے تحت سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے لیے صرف فوٹو سیشن اور ویڈیوز کے لیے جمع ہوتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایسی ہی ایک تحریکیں 1981،1986 اور2004میں چلائی گئی تھیں جوکہ جمہوریت کوسہارا دینے کامیاب ہوگئی تھیں۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما وسابق صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی نے کہاکہ جیل بھرو تحریک میں بڑی تعداد میں عوام نے شرکت کی اور پارٹی چیئرمین عمران خان کی کال پر گھروں سے نکلے ،ہم موجودہ امپورٹڈحکمرانوں اور ان کی پالیسیوں کو کسی صورت نہیں مانتے ،پارٹی قائدین نے اپنی گرفتاری دے کر ثابت کیا کہ وہ ملک کو بچانے کی خاطرکسی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ جیل بھرو تحریک میں نگران حکومت نے اس صوبے کے غیرسیاسی پولیس کو استعمال کیا، جتناچاہیں مقدمات درج کرلئے عمران خان اور اسکے ساتھی بھاگنے والے نہیں۔