’40 ہزار پودے لگانے کا مقصد سانس لینے والی مخلوق کو بچانا ہے’
رفاقت اللہ رزڑوال
رزعی یونیورسٹی پشاور میں موسم بہار کے لئے درخت اور پودے لگانے کا آغاز ہوگیا ہے جبکہ انتظامیہ کے مطابق بہار کے پہلے دو ہفتوں میں تقریباً چالیس ہزار تک پودے لگائے جائیں گے۔
زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جہان بخت نے ٹی این این کو بتایا کہ اس وقت پاکستان ان 10 ممالک میں چھٹے نمبر پر ہے جہاں پر موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہوئے ہیں جس کی وجہ سے پچھلے سال اپریل میں دو ہفتے تک شدید گرم ہوائیں چلی تھی جس کی وجہ سے گندم کی فصل میں 30 لاکھ ٹن تک کمی واقع ہوئی تھی۔
ان کے بقول اگر پودوں اور درختوں کی کاشت پر بین الاقوامی معیار کے مطابق کے توجہ نہ دی گئی تو اس صدی کے آخر میں پاکستان کی درجہ حرارت میں چار ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافہ ہوجائے گا جبکہ دنیا بھر میں یہ شرح ڈھائی سینٹی گریڈ تک جاسکتی ہے جس سے ہر سانس لینے والی مخلوق کی زندگی مشکل ہوجائے گی۔
ماہرین ماحولیات کے مطابق بین الاقوامی معیار کا تقاضہ ہے کہ زمین کے 25 فیصد رقبے پر سبزہ اُگایا جائے تاہم پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں 5 جبکہ شمالی اضلاع میں تقریباً 19 فیصد رقبے پر جنگلات موجود ہیں اور یہ شرح ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہے۔
ڈاکٹر جہان بخت کہتے ہیں "اس وقت ملک کے 40 لاکھ ہیکٹر زمین پر جنگلات اگائیں گئے ہیں اگر اس کو ڈیڑھ کروڑ تک پہنچایا جائے تو پھر ہم بین الاقومی معیار تک پہنچ سکتے ہیں جبکہ اس ہدف تک پہنچنے کے لئے یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ غور کر رہی ہے کہ ڈگری کی حصول سے پہلے ہر طالب علم کو کم از کم دس پودے لگانے ہوں گے ورنہ انہیں ڈگری نہیں ملی گی۔”
ماہرین کا ماننا ہے کہ جنگلات کا تین چوتھائی حصہ نباتات اور حیوانات کو زندگی بخشتی ہے اور فضا سے کاربن ڈائی اکسائڈ کو جذب کرتے ہیں جس سے نہ صرف اپنے لئے خوراک بناتے ہیں بلکہ انسانوں اور جانوروں کو بھی خوراک، ادویات اور ایندھن فراہم کرتے ہیں لیکن بعض علاقوں میں پودے یا جنگلات نہیں پائے جاتے ہیں بلکہ لوگ لگا کر سوکھ جاتے ہیں۔
اس حوالے سے زرعی یونیورسٹی کے ہارٹی کلچر ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر ساجد خان نے ٹی این این کو بتایا کہ ہر علاقے کے آب و ہوا کیلئے موزوں درخت لگائے جاتے ہیں اگر ماحول اور آب و ہوا کے مطابق درختیں نہ لگائے جائے تو وہ فائدے کی جگہ نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ درختیں یا پودے لگانے سے قبل ماہر نباتات سے مشورہ لینا چاہئے کیونکہ خاص قسم کے پودے ہوتے ہیں جن کی جڑوں میں ایسے زہریلے مواد ہوتے ہیں جو دیگر پودوں کو مار دیتے ہیں "پودے لگانا ثواب کا عمل ہے اور اس کا اس ملک کو کافی فائدہ ہوتا ہے لیکن وہ پودے اگانے چاہئے جو واقعی اس ماحول کو فائدہ پہنچا سکتی ہے۔”
یونیورسٹی میں شجر کاری مہم کے دوران خیبرپختونخوا کے سیکرٹری ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر داؤد خان بھی موجود تھے، انہوں نے کہا کہ درختوں کی اُگائی صرف صوبائی یا مرکزی حکومتوں کی نہیں بلکہ ہر فرد کی قومی زمہ داری ہے جس سے وہ اپنے آنے والے نسلوں کو محفوظ بناسکتا ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایچ ای سی یونیورسٹیوں میں اس قسم کے سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرے گی تاکہ صوبہ بھر میں ہریالی آجائے۔
دوسری جانب محققین کا خیال ہے کہ اگر پودوں اور درختوں کی کاشت پر توجہ نہ دی گئی تو اس صدی کے آخر تک پوری دنیا میں 2 اعشاریہ 5 جبکہ پاکستان میں 4 ڈگری سنٹی گریڈ تک حرارت میں اضافہ ہوجائے گا جس کی وجہ سے خوراک کی کمی کے ساتھ زندگی مزید مشکل ہونا شروع ہوجائے گا۔