جرائم

لوئر دیر: حسنین کو موبائل عزیز تھا، والدین نہیں!

کیف آفریدی

”شیر باز خان اپنی اہلیہ، ایک شیرخوار بچے اور چار بیٹیوں کے ساتھ صبح ناشتہ کر رہے تھے کہ اچانک شیرباز خان کا بڑا بیٹا حسنین اندر آیا اور ان پر پستول سے فائر کھول دیا جس سے شیرباز خان اور ان کی اہلیہ شدید زخمی ہو گئے، کچھ ہی لمحوں میں شیرباز خان تو زندگی کی بازی ہار گیا تاہم ان کی اہلیہ کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں وہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔

16 سالہ حسنین نے یہ قدم صرف اس لیے اٹھایا کہ مورخہ 24 فروری کو اس کے والدین شیرباز خان اور والدہ نے اسے موبائل پر زیادہ گیمز کھیلنے اور ٹک ٹاک کے استعمال سے منع کیا تھا اور بات یہاں تک گئی کہ حسنین کو والد نے مارا پیٹا بھی تاہم اسی رات پھر والدین نے اس کو منایا بھی اور نصیحت بھی کی کہ ہر وقت موبائل میں مصروف مت رہا کرو۔”

یہ باتیں خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر دیر کے علاقہ جندول گمبیر میں پیش آنے والے دلسوز واقعہ کے مرکزی ملزم حسنین کے ماموں فضل وہاب کی ہیں۔

شیرباز خان (فائل فوٹو)

ٹی این این کو واقعہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حسنین کئی دنوں سے پڑھائی میں دلچسپی نہیں لے رہا تھا اور والد کی طرف سے بار بار نصیحت کے باوجود نافرمان ہوتا جا رہا تھا، اس کے والد شیرباز خان اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے دن رات ٹیکسی چلاتے تھے، اب حسنین حوالات میں ہے اور اس کی ماں تیمرہ گرہ ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔

فضل وہاب کے مطابق ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ اگر ملزم کی والدہ کو ہوش آ جائے تو اس کے سامنے خاوند یعنی شیرباز خان کی موت کا ذکر نہ کریں ورنہ اس کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، عجیب سا غصہ چڑھا تھا حسنین کو کہ رات گزرنے کے باوجود وہ اسی طرح طیش میں تھا کہ صبح صبح اپنے ہی والدین پر گولیاں برسا کر انہیں خون میں نہلا دیا۔

کم عمر قاتل کی سزا، قانون اس حوالے سے کیا کہتا ہے؟

پشاور ہائی کورٹ کے وکیل محمد شہزاد نے اس حوالے سے بتایا کہ تعزیرات پاکستان سیکشن 83 میں واضح لکھا ہے کہ کسی صورت میں قاتل کو قاتل ہی تصور نہیں کیا جائے گا اگر بچے کی عمر 7 سال تک ہو، اور اس سے اگر کوئی جرم سرزد ہو جائے تو وہ مجرم نہیں کہلایا جائے گا، اسی طرح پی پی سی 83 میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر بچے کی عمر 7 سے 12 سال تک ہو تو پھر اس کی میچوریٹی کو دیکھا جائے گا، کورٹ اس سے تفتیش کرے گی کہ آیا متعقلہ بچہ جرم کی نوعیت کو سمجھ سکتا ہے اور ان کو یہ پتہ ہو کہ کہاں تک یہ جرم جانتا ہے، اگر یہ باتیں اس بچے میں پائی گئیں یعنی وہ اس جرم کی نوعیت کو سمجھتا ہے تو پھر جووینائل جسٹس سسٹم کے تحت اس کو سزا دی جائی گی لیکن اگر یہ بچہ جس کی عمر 7 سے 12 سال تک ہے، وہ ان چیزوں کو نہیں سمجھتا اور نہ جرم کی نوعیت سے آگاہ ہوتا ہے تو پھر اس کو کسی قسم کی سزا نہیں دی جائی گی۔

رات گزرنے کے بعد بھی حسنین کا غصہ ٹھنڈا نہ ہو سکا

ایڈوکیٹ سلمان شہزاد سے جب لوئر دیر کے واقعے میں ملوث 16 سالہ حسنین کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ جووینائل جسٹس سسٹم کے تحت اس کو کچھ مراعات دی جائیں گی یعنی اس کو ضمانت (Bail as a Matter of Right) دی جائے گی، اگر اس پر جرم ثابت بھی ہو جائے تو اس کو پھر بھی ڈیتھ سنٹینس یعنی سزائے موت نہیں سنائی جائے گی البتہ دوسری سزا دی جائے گی، اسی طرح جووینائل جسٹس سسٹم کے تحت متعقلہ بچے کو عام جیل میں بھی نہیں رکھا جائے گا بلکہ اس بچے کو بورسٹل انسٹی ٹیوشن کمسن مجرموں کی قید کا نظام) میں رکھا جائے گا اور اس کی تعلیم و تربیت کا خاص خیال رکھا جائے گا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جو بھی بندہ اگر اپنے والد کو یا پھر اپنے بیٹے کو یا کوئی اپنے دادا کو یا پھر اپنے پوتے یا نواسے کو قتل کرے تو قانون اس کو موت کی سزا نہ دینے کا حکم دیتا ہے لیکن اگر مقدمہ پولیس کی طرف سے درج کیا گیا ہو تو وہ بالکل معاف نہیں ہو گا البتہ والدہ کی طرف سے اگر قاتل بچے کو معاف کر دیا جاتا ہے تو بھی قانون ان کے دوسرے بچوں سے رائے لے گا جن کی عمریں 18 سال سے زیادہ ہوں، اگر ورثا کی عمریں 18 سال سے کم ہوں یعنی بالغ نہ ہوں تو اس صورت میں ملزم کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔

نوجوان نسل پر گیمز اور ٹک ٹاک کے اثرات

اس حوالے سے سوشل ایکٹیوسٹ سائرہ خان کا کہنا تھا کہ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اس جدید دور میں موبائل کا استعمال زیادہ ہو گیا ہے، اگر دیکھا جائے تو دنیا میں کوئی چیز ایجاد ہوتی ہے تو انسان کے فائدے اور آسانی کے لیے ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں ان کا غلط استعمال زیادہ ہوتا ہے جیسے کہ پب جی، ہنٹنگ فائر، وار گیمز اور ٹک ٹاک وغیرہ میں حد سے زیادہ دلچسپی لینا تو اس طرح کے کاموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان سے بچے کے ذہن میں تشدد پیدا ہوتا ہے، بچہ وائلنس کو ترجیح دیتا ہے، یہ سب لڑائی جھگڑے کو فروغ دیتے ہیں، اسی طرح یہ گیمز بچے کو اسلحے کی پہچان اور استعمال کے حوالے سے معلومات دیتی ہیں جو انتہائی خطرناک ہے۔

سائرہ خان کے مطابق ایک ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ واقعی اسلحہ کو صرف دیکھنے سے بھی جذباتی سوچ انسان میں پیدا ہوتی ہے، جب گیمز میں اسلحے کا استعمال اور ٹی وی پر بار بار اشتہارات چلتے ہیں تو انسان غیرشعوری طور پر اس چیز کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتا ہے کہ اس چیز کو استعمال کرے تاکہ اس کے بارے میں جان کاری حاصل ہو اور یوں وہ ڈھونڈتے ہوئے متعلقہ چیز کو حاصل کرتا ہے، اس طرح کی سوچ اور فعل کو تحت الشعوری پیغام کہا جاتا ہے، ہمیں مختلف نیوز چینل اور پرنٹ میڈیا پر اس طرح کی خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ ٹک ٹاک پر اسلحے کی نمائش نوجوان کو مہنگی پڑ گئی، پولیس نے گرفتار کر لیا وغیرہ۔ آخر اس طرح کا جنون نوجوان نسل میں کیوں دن بدن بڑھتا جا رہا ہے؟

پب جی کھیلنا جائز نہیں

یاد رہے کہ 2020 میں کراچی کے ایک بڑے دینی مدرسے، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کی جانب سے نوجوانوں میں مقبول ترین آن لائین گیم پب جی کے متعلق جاری ایک فتوے نے اسے کھیلنے والوں میں اس وقت بے چینی پھیلا دی تھی جب مدرسے کے مفتی عبدالرحمٰن نے فتویٰ دیا کہ مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے پب جی گیم کھیلنا جائز نہیں، ”مگر پب جی کھیلنے والا اس وقت تک دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا جب تک وہ گیم کے ایک خاص سٹیج تک نہ پہنچ جائے، جس میں پلیئر کو پاور حاصل کرنے کے لیے بتوں کی پوجا کرنی پڑتی ہے۔ زرا نہیں زیادہ سوچیے!”

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button