بلاگزصحت

‘جڑی بوٹیوں کی افادیت آج بھی ہے مگر اب لوگوں کو ان کی پہچان نہیں ہے’

شمائلہ آفریدی

"امی اس جڑی بوٹی کا نام کیا تھا جس کا پانی پینے سے کچھ ہی دنوں میں میری خارش ٹھیک ہو گئی تھی، یہ تو بڑی قیمتی جڑی بوٹی تھی۔” امی نے بھائی کے پوچھنے پر جواب دیا کہ یہ پہاڑ کے چٹان میں "پروتہ” (چڑی پنجہ یا اس سے ملتی جلتی ایک بوٹی جو پہاڑوں میں اگتی ہے) پودے کے پتوں کو پیس کر پانی میں ملایا ہے اور یہی دیا ہے۔ میں امی اور بھائی کے بیچ یہ مکالمہ سن رہی تھی اور اچانک مجھے یاد آیا کہ ایک مرتبہ میرے پاؤں پر دانہ نکلا تھا جس کیلئے میری نانی نے "خربونڑے” (اک اور پہاڑی جڑی بوٹی) کے پتے توڑ کر میرے پاؤں پر باندھے تھے اور پر کچھ ہی دنوں میں دانہ نرم ہوا، پیپ نکلوا کر ٹھیک ہو گیا۔

قرآن پاک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے "جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو اللہ مجھے شفا عطا کر دیتا ہے۔”

کسی بھی بیماری کا علاج اللہ تعالی نے کہاں رکھا ہے اور کیا ہے اس بات کا کھوج لگانا انسان کی ذمہ داری ہے۔ یہ کھوج علم، مسلسل جہد اور مہارت کا مرہون منت ہے۔ طب یا علاج کا فن شروع سے نسل در نسل منتقل ہوتا رہا۔ یونان میں اس فن کی زیادہ پذیرائی ہوئی۔ وہاں ایسی صلاحیتوں کے انسان پیدا ہوئے جنہوں نے نئے نئے اسلوب سے طب کو روشناس کراویا۔ جب اسلام کا سورج طلوع ہوا، مسلمانوں نے ہر دور میں علم کے میدان میں تحقیق کی، مختلف علوم کا عربی زبان میں ترجمہ ہوا، جہاں علم طب کو بھی متعارف کروایا گیا۔

زمانہ قدیم سے پشتون قبائلی علاقوں میں بھی لوگ جڑی بوٹیوں سے ادویات بناتے تھے۔ میں نے اپنے مشران سے یہ سنا ہے کہ ہمارے اپنے قبائلی علاقے حسن خیل میں مقامی لوگ جڑی بوٹیوں سے مختلف بیماریوں کا علاج کرتے تھے۔  بہت سے مشران تو دنیا سے جا چکے اور ہم نے ان کے تجربات سے کچھ نہیں سیکھا لیکن کچھ مشران اب بھی موجود ہیں جن کا اس ضمن میں اہم کردار رہا ہے۔ ان میں ایسے مشران بھی تھے جو قدیم طرز کی جڑی بوٹیوں سے علاج کا فن جانتے تھے جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔

یہ مہارت حاصل کرنا ہر کسی کا کام نہیں تھا، کچھ لوگ تھے جو جڑی بوٹیوں کے ماہر تھے۔ ان میں سے ایک حسن خیل سے تعلق رکھنے والی 70 سالہ زرینہ بی بی بھی ہیں جو اپنے دور کی ایک طبی ماہر سمجھی جاتی تھیں، دور دور سے لوگ ان سے علاج کروانے آتے تھے۔

زرینہ بی بی سے جب ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ان کے دور میں ایلوپیتھک ادویات، ہسپتال، ڈاکٹرز وغیرہ نہیں تھے، غربت زیادہ تھی اور لوگ دور شہروں تک علاج کیلئے نہیں جا سکتے تھے۔

زرینہ بی بی کے مطابق علاقے کے پہاڑوں میں ایسی جڑی بوٹیاں موجود تھیں جن کو لوگ توڑ کر پیستے یا پانی میں ابال کر پیتے تھے، ”میں خود بھی جا کر پہاڑوں سے جڑی بوٹیوں کے پتے، تنے، جڑیں اور بیج سب لاتی تھی اور مختلف بیماریوں کیلئے دوا بناتی تھی اور اللہ تعالی مریض کو شفاء دے دیتے تھے۔”

زرینہ بی بی تب "ماموڑہ” (مامیخ) کی جڑوں کو ابالتیں جو پیلے یرقان اور پیشاب کی جلن کو ختم کرنے کیلئے مفید سمجھی جاتی تھی، اسی طرح مست یارہ، "ازغکے” (دھماسہ بوٹی) کا خشک پاؤڈر بناتیں جس کو کھانے سے جسم کی گرمائش، معدے کی جلن اور خارش ختم ہو جاتی تھی، تو "ویلنے” (جنگلی پودینہ) ہاضمے اور پیٹ کے درد کو ختم کرنے، "خپیانگا” (پنی ڈوڈہ) کے بیج ہاضمے، معدے کی ٹھنڈک کیلئے زیتون کے پتے اور بیج شوگر و بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے کیلئے دوا کے طور پر دیتی تھیں، اور "ورمنڈے” (اک اور پہاڑی بوٹی) کے بیج خارش کو ختم کرنے جبکہ ”خربونڑے” کے پتے دانوں کو نرم کرنے پیپ نکلوانے کیلئے استعمال کرتی تھیں۔ اسی طرح مال مویشی کے پاؤں ٹوٹنے کی صورت میں بھی وہ مختلف جڑی بوٹیوں کے پتوں کو پیس کر پٹی کر دیا کرتی تھیں۔

زرینہ بی بی کے مطابق پہلے جب کسی کو زیادہ بخار ہوتا تھا تو دنبے کی کھال میں مریض کو لپیٹ دیا جاتا تھا، اس طرح مریض کا پسینہ نکلتا اور دو تین دنوں میں بخار اتر جاتا، ”آج نئے نئے سائنسی طریقوں سے علاج کیا جاتا ہے لیکن اب بھی جڑی بوٹیوں کی افادیت موجود ہے، میں نے اولاد سے محروم خواتین کیلئے بھی جڑی بوٹیوں سے دوا بنائی ہے اور اللہ کے فضل و کرم سے ان کے اولاد بھی ہوئی ہے۔”

زرینہ سمجھتی ہیں کہ اللہ تعالی نے ہماری سرزمین کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ ان پہاڑوں میں ایسی قیمتی جڑی بوٹیاں موجود ہیں جو ہیرے کی مانند قیمتی ہیں لیکن افسوس کہ علاقے میں کسی کو ان کی پہچان، ان کی اہمیت کا پتہ نہیں ہے۔

زرینہ بی بی اپنے پرانے وقت کو یاد کرتی ہیں جب وہ اپنی سہلیوں کے ساتھ پہاڑوں سے جڑی بوٹی لاتی تھیں، عمر بڑھنے کی وجہ سے وہ پہاڑ تو نہیں جا سکتیں لیکن اج بھی وہ گھر کی خواتین کو یہ علم منتقل کر رہی ہیں، ”چاہتی ہوں کہ جو علم مجھے اپنے آباو اجداد نے دیا ہے وہ اگلی نسلوں کو منتقل کروں، میرے لئے میرے علاقے کی یہ جڑی بوٹیاں بہت قیمتی رہی ہیں کیونکہ ان جڑی بوٹیوں سے مریضوں کو شفاء ملتی تھی جب کوئی دوسرا طریقہ علاج موجود نہیں تھا۔”

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button