اسلامیہ کالج میں پروفیسر کا قتل : ملزم کا عدالت میں جرم ماننے سے انکار، وجہ کیا ہے؟
عثمان دانش
اسلامیہ کالج پشاور میں انگریزی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر بشیر احمد کو ‘قتل’ کرنے والے ملزم چوکیدار شیر محمد نے عدالت میں جرم ماننے سے انکار کر دیا۔
19 فروری کو پشاور کے تاریخی اسلامیہ کالج میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں چوکیدار اور پروفیسر کے درمیان تلخ کلامی کے بعد چوکیدار کی فائرنگ سے پروفیسر کو قتل کر دیا گیا جبکہ اس کیس میں نامز ملزم شیر محمد کو پولیس نے کرک سے گرفتار کرلیا۔
گزشتہ روز کمانڈنگ کیمپس تجمل خان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ملزم شیر محمد نے اعتراف جرم کرلیا ہے اور ملزم کی نشاندہی پر مقتول پروفیسر بشیر کا موٹرسائیکل اور آلہ قتل برآمد کیا گیا ہے۔
پریس کانفرنس کے بعد ملزم نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں اس اقدام پر افسوس ہے اور وہ قتل کرنا نہیں چاہتے کیونکہ استاذ کی مثال باپ کی طرح ہے اور ان کا احترام کرنا ضروری ہے۔
ملزم نے پولیس کی موجودگی میں اپنے جرم کا اعتراف بھی کیا تھا تاہم آج جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں ملزم نے جرم ماننے سے انکار کر دیا جس کے بعد عدالت نے ملزم کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
ملزم کے اعتراف جرم سے انکار کرنے کے بعد ہم نے ماہرین قانون دان سے بات کی ہے کہ آخر کیوں ملزم پولیس کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کرنے بعد عدالت میں جرم ماننے سے انکار کرتا ہے؟
اس حوالے سے سپریم کورٹ کے وکیل ایڈووکیٹ شبیر حسین گگیانی نے ٹی این این کو بتایا کہ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ کسی ملزم نے پولیس کے سامنے جرم قبول کرنے کے بعد عدالت میں جرم ماننے سے انکار کر دیا جبکہ اس سے پہلے بھی کئی ملزمان عدالت کے سامنے جرم ماننے سے انکاری رہے ہیں۔
ملزم کیوں پولیس کے سامنے جرم قبول کرتا ہے؟
ایڈووکیٹ شبیر حسین کے مطابق قانون بنانے والوں کو پہلے ہی دن سے پولیس کی کردار کا علم تھا کہ پولیس مار پیٹ، دھونس اور دھمکیوں سے ملزم کا بیان ریکارڈ کرسکتے ہیں جبکہ ایسے کئی کسیز میں پولیس نے ملزم کی بیوی اور بچوں کو تھانے میں بٹھایا ہوتا ہے اور اس وقت تک نہیں چھوڑتے جب تک وہ اپنا جرم قبول نہ کرے۔
انہوں نے بتایا کہ کئی کیسز میں ایسا بھی ہوا ہے کہ پولیس ملزم سے وعدہ کرکے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ اعتراف جرم کرلیں ہم آپ کے ساتھ تعاون کریں گے اور آپ کیس میں بری ہوجاؤ گے۔
دوسری جانب پشاور ہائیکورٹ کے وکیل طارق افغان کے مطابق پولیس زور زبردستی ملزم سے مرضی کا بیان ریکارڈ کرتے ہیں، ایسے حالات میں ملزم کو ان کے وکیل یا کسی اور نے پہلے سے بتایا ہوتا ہے کہ پولیس کے مار سے بچنے کے لئے تھانے میں جرم مان لیں اور زياده تر کیسز میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ ملزم پولیس کے سامنے جرم کا اقرار کر کے مجسٹریٹ کے سامنے جرم ماننے سے انکار کرتا ہے۔
طارق کے بقول مجسٹریٹ ملزم سے پولیس کی غیرموجودگی میں بیان ریکارڈ کرتے ہیں اور ملزم سے کہتے ہیں کہ اگر آپ اپنا جرم قبول کرتے ہیں تو اس کے یہ مضمرات ہوں گے جبکہ اس وقت ملزم پر کسی کا کوئی دباؤ نہیں ہوتا اس لئے ملزم جرم ماننے سے انکار کرتا ہے۔ ان کے مطابق جب ملزم کا بیان ریکارڈ کیا جاتا ہے اور اس میں مزید تفتیش کی ضرورت ہو تو پولیس ریمانڈ کی استدعا کرتے ہیں اور ملزم کو پولیس کے حوالے کیا جاتا ہے جبکہ اگر تفتیش کی ضرورت نہ ہو تو پھر ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جاتا ہے۔
ادھر شبیر حسین گگیانی کا کہنا ہے کہ قانون میں پولیس کے سامنے ملزم سے ریکارڈ کی گئی بیان کی اتنی اہمیت نہیں ہے، قانون شہادت آرٹیکل 38 اور 39 میں کلیئر ہے کہ پولیس کے سامنے ملزم کے ہر قسم کا اقبال جرم کی قانونی حیثیت نہیں ہے، ملزم کا پولیس کے سامنے بیان کو نہ عدالت میں مانا جاتا ہے اور نہ یہ کیس میں ملزم کے خلاف جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کئے گئے بیان کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ وہ بیان بغیر کسی دباؤ ریکارڈ کیا جاتا ہے، اگر دیکھا جائے تو کرمنل کیسز میں زیادہ تر ایسا ہی آیا ہے کہ ملزم بیان میں پولیس کے سامنے اقبال جرم کرتا ہے اور پھر عدالت میں اقبال جرم سے انکار کرتا ہے۔
دوسری جانب ایڈووکیٹ طارق افغان نے بتایا کہ اس واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی شوسل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے تاہم ان فوٹیجز میں بھی قانونی نقطے ہیں کیونکہ اس ویڈیوز کی ابھی تک فارنزک ٹیسٹ نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایک پروفیسر کو یونیورسٹی کے اندر قتل کیا گیا ہے اس کیس میں پولیس کو مزید تفتیش کی ضرورت ہے۔