اپر دیر: خواتین ممبران کونسل اجلاسوں میں شرکت سے کیوں کتراتی ہیں ؟
زاہد جان دیروی
اپر دیر میں چند سال قبل خواتین کی سیاست میں آنا معیوب سمجھا جاتا تھا تاہم ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والی گھریلو خاتون گل پری نے 2015 کے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیکر اس سوچ کو ہمیشہ کے لئے مات دے دی کہ خواتین سیاست میں حصہ نہیں لی سکتی۔
چار بچوں کی 33 سالہ ماں گل پری کے لئے خواتین کو درپیش مسائل اور ان کے حقوق کے لئے بلدیاتی انتخابات میں حصہ آسان نہیں تھا تاہم میدان میں اترنے کے بعد کامیابی ان کی مقدر بنی اور وہ پہلی بار تحصل کونسلر منتخب ہوگئیں۔
گل کا خیال تھا کہ مںتخب ہونے کے بعد وہ خواتین کو درپیش مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی لیکن الیکشن میں کامیاب ہونے کے چند سال بعد ان سمیت دیگر خواتین کی یہ خام خیالی اس وقت دور ہوگئی جب تحصیل کونسل میں فنڈز کی تقسیم کا مرحلہ آیا۔
گل پری کے مطابق بلدیاتی انتخابات میں منتخب خواتین کونسلر کے لئے نہ تو ترقیاتی فنڈز مختص کئے گئے اور نہ ہی ایک ممبر کی حیثیت سے انہیں کوئی اہمییت دی گئی، یہی رویہ ہمارے لئے حیران کن اور ناقابل برداشت تھا لیکن مردوں کے معاشرے میں دیگر امور کے ساتھ سیاست کے میدان خواتین کے ساتھ یہی ہونا تھا۔ گل سمجتھی ہیں کہ اخلاقی اور اصولی طور پر یہ فیصلہ ہونا چاہے تھا کہ خواتین اراکین کو ترقیاتی فنڈز کی تقسیم کار میں کم از کم مرد ارکان کے مساوی فنڈ دیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ ہماری لئے کونسل میں نامناسب اور غیر جمہوری رویے کونسلوں میں نمائندگی ملنے کے باوجود حوصلہ آفزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کی باعث بنی رہی جس سے خواتین میں خود مختاری کا رجحان کم اور بلدیاتی نظام سے دل آٹھنے کا سبب بن گیا۔ گل کا کہنا ہے گو کہ حکومت اور الیکشن کمیشن نے اپنے طور پر خواتین کو مقامی حکومتوں میں بھرپور نمائندگی ممکن بنائی ہے لیکن ان رویوں سے یہ لگ رہا ہے کہ خواتین کو با اختیار نہیں بلکہ الیکشن میں شامل کرنے الیکشن کمیشن کی شرط پوری کرنے کی مجبوری کے باعث نمائندگی دے کر صرف خانہ پری کرنا ہے۔
پری کا کہنا ہے کہ ان رویوں کی وجہ سے مجھ سمیت بیشتر خواتین ممبران نے نا امید ہو کرکونسل کے اجلاسوں میں آنا ہی بند کردیا ” اگر ضلع ، تحصیل ناظمین، چیرمین کونسلز میں خواتین ارکان کو مساوی ترقیاتی فنڈز و دیگر سہولیات نہیں دیں گے تو ہم کس طرح خواتین کے مسائل حل کر پائیں گی، مسائل حل نہ کرنے اور خواتین ووٹرز کے ساتھ وعدوں کو ایفا نہ کرنے کی صورت میں دوبارہ سامنا کس طرح سے کریں گی؟”
انہوں نے مزید بتایا کہ وقت گزرنے کے بعد سالانہ بجٹ اجلاس کے علاوہ ہم نے کونسل کے اجلاسوں میں حصہ لینا چھوڑ دیا تاہم اس کے باجود ہم اپنی حاضری لگوانے کے لئے خاوند اور بھائیوں کو اجلاس میں بھیجتے تھے اور خود گھریلو ذمہ داریوں پر توجہ دیتی تھییں۔
گل پری کے علاوہ دیگر سابق خواتین ممبران کونسل بھی اس طرح کی مشکلات کا شکایت کرتی ہیں۔
ایک اور خاتون کونسلر نے نام نہ بتانے کہ شرط پر ٹی این این کو بتایا کہ وہ کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لئے دیر شہر سے درجنوں کلومیٹر دور علاقے سے آتی تھیں، کونسل اجلاس میں کئی بار چند دیگر مقامات سٹاپ پر گاڑیوں سے اترنا اور دوسرے گاڑی میں بیٹھ کر آنا ہوتا تھاجو بظاہر مردوں کی نسبت خواتین کیلئے مشکل مرحلہ ہوتا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ ستم ظرفی یہ تھی کہ اجلاس کے دوران بروقت پہنچنے کے باوجود انہیں پانچ سو روپے یومیہ اعزازیہ ملتا تھا جو ان کے مطابق بہت کم اور نامناسب تھا کیونکہ مردوں کیلئے آنا جانا بہت آسان اور معمول کا کام ہوتا ہے لیکن خواتین کو گھروں سے نکلنا، بچوں اور گھریلو مصروفیات کو چھوڑ کر آنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
ضلعی الیکشن کمیشن آفیسر کا موقف
خواتین اراکین کے کونسلوں میں عدم شرکت اور انکے تحفظات کے بارے میں ضلعی آفیسرجہانزیب خان نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کا کام الیکشن کے دوران تمام دستیاب وسائل استعمال کرکے انتخابی امیدواروں کو الیکشن کیلئے سہولیات فراہم کرنا، انتخابات کو پر امن بنانے اور انتخابی عمل کی تکیمل ہوتی ہے۔
جہانزیب نے کہا کہ الیکشن رولز اور قوانین ہمیں الیکشن کے پرامن انعقاد تک کی اجازت دیتا ہے ان کے نتائج کی مکمل ہونے اور امیدواروں سے حلف برداری کے بعد پھر الیکشن کمیشن کا کام وہاں ختم ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد موجودہ بلدیاتی قوانین کے مطابق متعلقہ تحصیل اور وویلج کونسلز میں ان کے چیئرمین، کنونئیرز کونسل کو چلانے کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ ان قوانین اورالیکشن رولز کے مطابق کونسل کو چلائیں جبکہ کونسلوں میں اجلاسوں اور اس کی کاروائی کی ذمہ داری لوکل گورنمنٹ کی ہوتی ہے۔
ان کے بقول الیکشن کمیشن کا بنیادی مقصد الیکشن کو مکمل کروانا ہے جبکہ کونسل کے اجلاسوں میں الیکشن کمیشن کا کوئی عمل ودخل نہیں ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ خیبر پختونخوا میں 31 مارچ 2022 کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ضلع اپر دِیر کی چھ تحصیلوں( ضلعی ہیڈ کوارٹرز کی تحصیل دِیر، تحصیل براول، تحصیل لرجم، تحصیل شرینگل، تحصیل کلکوٹ اور تحصیل واڑی) میں مردوں کے ساتھ ساتھ درجنوں خواتین امیدوار تحصیل، ویلیج اور نیبرہُڈ کونسلوں کی ارکان منتخب ہوئیں۔ ان چھ تحصیل کونسلوں میں خواتین ووٹرز نے اپنے مسائل کے حل کے لئے 40 خواتین ممبران کو براہ راست منتخب کیا ہے۔
لیکن حسبِ روایت منتخب خواتین ارکان کی اپنی متعلقہ کونسل کے ماہانہ اجلاس میں شرکت سے گریزاں نظر آتی ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں خواتین ووٹرز کے مسائل صحیح طریقے سے ان فورمز پر نہیں اٹھائے جا رہے۔
اسٹنٹ ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ کا کیا کہنا ہے؟
اس تمام صورتِ حال پر حکومت کے کردار پر اپر دِیر میں لوکل گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر بادشاہ زادہ کہتے ہیں کہ ضلع اپر دِیر میں چھ تحصیلیں ایک سو 17 ویلج اور پانچ نیبرہُڈ کونسلیں ہیں۔
ان کے مطابق مقامیحکومتوں میں تینوں سطحوں پر خواتین کو نمائندگی دی گئی ہے تاکہ وہ اپنے ضلع کی خواتین کی کماحقہ نمائندگی کرسکیں "اسی لئے خواتین کی تحصیل، ویلج اور نیبرہُڈ کونسلوں میں شرکت ضروری ہے تاکہ وہ خواتین کے مسائل کو کونسل میں پیش کر کے انہیں حل کروائیں۔”
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے 2013 کے لوکل گورنمنٹ کے تحت بنائے گئے رولز آف بزنس پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس اینڈ میٹنگ 2015 کی شق کے مطابق اگر کونسل کا کوئی رکن تحریری درخواست کے بغیر کسی اجلاس سے مسلسل پانچ دن غیر حاضر رہے تو اس کی نشست کو خالی قرار دیا جا سکتا ہے۔
اے ڈی لوگل گورنمنٹ آپردیر بادشاہ زادہ کہتے ہیں خواتین ارکان کی جگہ ان کے رشتہ داروں کی کونسل اجلاس میں شرکت ایک غیر قانونی عمل ہے یہی وجہ ہے کہ لوکل گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ کونسل کے اجلاس سے غیر حاضر رہنے والی خواتین اور مرد ارکان سے جواب طلبی کے لئے جلد ہی شو کاز نوٹس جاری کرے گا اور تسلّی بخش جواب نہ ملنے کی صورت میں ان ارکان کو نا اہلی کا سامنا کرنا پر سکتا ہے۔
لیکن دوسری جانب خواتین کے حقوق پر کام کرنے والے غیر سرکاری تنظیم کے ارشد خان ابدالی سمجھتے ہیں کہ کونسل کے اجلاسوں میں خواتین کی شرکت کو یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں تحصیل کی سطح پر ہونے والے ترقیاتی منصوبوں میں برابر کا حصہ دار تسلیم کیا جائے تاکہ وہ خواتین کی بہتر طور پر خدمت اور انکے مسائل حل کرسکے کیونکہ خواتین کے مسائل سے خواتین ہی بخوبی واقفیت ہوتی ہیں۔