فخرالاسلام کاکاخیل
ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے اور بچہ ماں کی گود میں جو کچھ بھی سیکھتا ہے وہ مستقبل میں اس کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے، خواتین اور مرد دونوں کی تعلیم کے بغیر معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کا قیام ممکن نہیں۔
ہمارے حکمران مردوں کی نسبت سے خواتین کی تعلیم پر زیادہ توجہ دینے کے دعوے کرتے ہیں تاہم بدقسمتی سے زمینی حقائق نے حکمرانوں کے دعوؤں کو ہمیشہ چھوٹا ثابت کردیا ہے۔
پانچ لاکھ 20 ہزار آبادی میں مشتمل ضلع ہنگو میں 12 گورنمنٹ گرلز پرائمری سکولز کئی سالوں سے مکمل طور پر بند ہیں ، ان سکولوں میں ہنگو چھپر، چانی بانڈہ، تنگی میاں گان، عزیز آباد، شناوڑی علی خیل، چھپری نریاب 1، چھپری نریاب 2، کاٹگر، توغ چھپر، شمس الدین، غلوچینہ اور یخو خلہ کے جی جی پی ایس سکولز شامل ہیں جس سے ہزاروں طالبات کا تعلیم مستقبل شدید خطرے سے دوچار ہے، فرقہ ورانہ فسادات اور دہشت گردی یہاں کے نئی نسل کو ہمیشہ کی طرح تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے میں روکاٹ بنی ہے۔
متاثرہ طالبات کے والدین سابق ناظم گل صاحب شاہ، ثواب گل، شمس الرحمان، محمد عثمان، منت خان، انعام گل، خیوا گل و دیگر کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں میں سٹاف کی کمی اور سہولیات کا فقدان نئی نسل کے تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کے ارادوں کے حوصلہ شکنی کررہا ہے، حکومت اور محکمہ تعلیم کی طرف سے اس ضمن میں اقدامات بھی مایوس کن ہے جبکہ ضلع ہنگو سے ممبران اسمبلی بھی تعلیمی معاملات میں کسی قسم کی دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔
ان سکولوں میں بعض تعلیمی ادارے دہشت گردی اور بلڈنگ کی خستہ حالی جبکہ کچھ تعلیمی ادارے اساتذہ کی تعیناتی کے انتظار میں ویران پڑی ہیں جبکہ دہشت گردی کے بعد حالات نارمل ہونے پر بھی کئی سالوں سے ذمہ داروں نے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائیں اور نہ ہی ان علاقوں کی طالبات کے لئے تعلیم کی حصول کیلئے متبادل جگہ مہیا کئے۔
دوسری جانب ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر حسرت زہرہ کے مطابق ضلع ہنگو میں زنانہ تعلیمی شرح 27 فیصد ہے جو کہ مردوں کے مقابلے میں کافی کم ہے جس کی بنیادی وجہ علاقے میں تعلیمی اداروں کی غیر فعالی اور حکمرانوں کی عدم توجہ سمجھی جاتی ہے۔
زہرہ کے بقول کئی حستہ حال بلڈنگ کی دوبارہ تعیمرات کے لئے فنڈز تاحال جاری نہیں ہوئے جبکہ بعض تعلیمی ادارے اس لئے بند بڑے ہیں کیونکہ یہاں مقامی طور پر تعلیمی یافتہ خواتین موجود نہیں جو خالی آسامیوں کے لئے ایٹا ٹیسٹ پاس کرسکے جبکہ دیگر علاقوں کی استانیاں یہاں ڈیوٹی کرنے کی بجائے استعفیٰ کو ترجیح دیتی ہیں جس کی بنیادی وجہ پہاڑی علاقہ جات میں سکول تک جانے کے لئے ٹرانسپورٹ کا مناسب نطام موجود نہ ہونا ہے۔
ڈی ای او حسرت زہرہ کے مطابق اس سلسلے میں مول آئل اینڈ گیس کمپنی کو بھی کنٹریکٹ کے طور پر مقامی ٹیچرز ہائر کرنے سے متعلق بات چیت کی گئی مگر تاحال کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔
متعقلہ علاقوں کے منتخب نمائندگان چئیرمیں احسان اللہ عرف حسن، چئیرمین عبد القیوم، چئیرمین میمون شاہ، چئیرمین سید ابن علی، چئیرمین صابر حلیم، ممبر نیاز مین گل اور دیگر سے زنانہ تعلیمی اداروں کی بندش کے حوالے سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس اختیارات نہیں، ان تعلیمی اداروں کی بحالی کیلئے اراکین اسمبلی سابقہ ایم پی ایز اور ایم این اے بھی اس سے متعلق رابطے کئے گئے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
مقامی منتخب نمائندگان نے حکومت اور اعلی حکام سے مطالبہ کیا کہ یہ دور افتادہ پہاڑی علاقوں کے زنانہ تعلیمی اداروں کیلئے ایٹا ٹسٹ ختم کرے یا دیگر علاقوں کی نسبت ایٹا ٹسٹ میں نرمی اختیار کی جائے تاکہ سکولوں کی بندش کیساتھ ساتھ سٹاف کی عدم دستیابی کا مسئلہ حل ہو سکے۔