آئینی تقاضے پورے نہ کئے گئے تو اسمبلیاں بحال بھی ہو سکتی ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ
عثمان دانش
پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی انتخابات کے معاملے پر سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کیس پر گزشتہ روز سماعت ہوئی اور عدالت نے صدر، وفاقی حکومت، الیکشن کمیشن، پنجاب، کے پی کے گورنرز، پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار کونسل اور چاروں صوبوں کے ایڈوکیٹ جنرلز اور اہم سیاسی پارٹیوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت آج صبح 11 بجے تک ملتوی کر دی۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بنچ نے ازخود نوٹس پر سماعت شروع کی تو جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ انھیں ازخود نوٹس پر تحفظات ہیں، یہ ازخود نوٹس نہیں بنتا، یہ ازخود نوٹس جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس مظاہرنقوی کے نوٹ پر لیا گیا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ دو صوبوں کے سپیکرز نے درخواست پہلے دائر کی ہے بعد میں ازخود نوٹس لیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے بھی ازخود نوٹس پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ آئین کی کیا خلاف ورزی ہوئی ہے جس پر ازخود نوٹس لیا گیا؟
جسٹس منصور علی شاہ نے دوران سماعت سوال اٹھایا کہ آئین میں اسمبلیوں کی مدت پانچ سال ہے، لوگ اپنے نمائندوں کو ووٹ دے کر پانچ سال کے لئے ممبر منتخب کرتے ہیں، کیا اسمبلیاں کسی کی ڈکٹیشن پر ختم ہو سکتی ہیں؟ عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ وزیراعلی نے اسمبلی آئین میں رہتے ہوئے توڑی یا کسی سیاسی شخصیات کے کہنے پر اسمبلی توڑی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر عدالت کیس کی سماعت کے دوران اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ آئینی تقاضے پورے کئے بغیر اسمبلی تحلیل ہوئی ہے تو پھر ان اسمبلیوں کو بحال بھی کیا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 224 کہتا ہے کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 دن میں انتخابات ہوں گے، وقت جلدی سے گزر رہا ہے، ہائیکورٹ میں معاملہ زیرسماعت تھا لیکن کوئی فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھا، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اسمبلی تحلیل ہوئے 6 ہفتے گرز گئے آرٹیکل 244 کے تحت 90 دن میں الیکشن کا انعقاد ہونا چاہیئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، چاہتے ہیں الیکشن آئین کے مطابق ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے تین معاملات کو دیکھنا ہے؛ آرٹیکل 224 کہتا ہے کہ 90 دن میں الیکشن ہوں گے، صدر پاکستان نے الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 57 کے تحت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا ہے، دیکھنا ہے کہ صوبائی اسمبلی تحلیل کے بعد تاریخ دینا کس کا اختیار ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ حل طلب ہے سب کو سنیں گے لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے طویل سماعت نہیں کریں گے، تیاری کریں سماعت سوموار سے ہو گی۔
پشاور ہائیکورٹ کے وکیل علی گوہر درانی ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ نے دو صوبائی اسمبلیوں کی الیکشن میں تاخیر پر نوٹس لے لیا ہے، آئین کے مطابق اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 دن میں انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے اور گورنر جب اسمبلی تحلیل کرتا ہے تو اس وقت وہ الیکشن تاریخ دیتا ہے لیکن گورنر نے ابھی تک انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا اور صدر پاکستان نے گزشتہ روز الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 57 کا استعمال کرتے ہوئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا ہے۔
علی گوہر دارنی ایڈوکیٹ نے بتایا کہ اسمبلی تحلیل کا اختیار وزیراعلی کے پاس ہوتا ہے، سپریم کورٹ کے مععزز جج نے اسمبلی تحلیل پر سوال اٹھایا ہے یہ تو کل جب لارجر بنچ دوبارہ اس کیس کی سماعت کرے گا تو یہ پوائنٹ مزید کلیئر ہو جائے گا۔ علی گوہر ایڈوکیٹ نے بتایا کہ آئین کے مطابق جب وزیراعلی اسمبلی تحلیل کرتا ہے تو سمری گورنر کو بھیجتا ہے اور گورنر سمری پر دستخط کرتا ہے تو اسمبلی تحلیل ہو جاتی ہے، آئین میں یہ بات نہیں بتائی گئی کہ کن وجوہات پر وزیراعلی اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے، جب سمری گورنر کو جاتی ہے اور وہ دستخط کرتا ہے تو اسمبلی تحلیل ہو جاتی ہے۔
علی گوہر درانی ایڈوکیٹ نے بتایا کہ ایسے کیسز میں ججز ریمارکس دیتے ہیں جب تک ریمارکس آرڈر شیٹ پر نہیں آتے تو وہ صرف ریمارکس ہوتے ہیں، ہم دیکھتے ہیں عدالت ریمارکس دیتی ہے لیکن پھر آرڈر شیٹ پر اس کا ذکر نہیں ہوتا ایسے ریمارکس کا کیس پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بنچ میں جسٹس اعجاز الحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔
کچھ سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں نے 9 رکنی لارجر بنچ میں سپریم کورٹ کے دو سینئر ججز جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس سردار طارق مسعود کو شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان بار کونسل نے بھی اعلامیہ جاری کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ازخود نوٹس کیس کے لارجر بنچ میں جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس سردار طارق مسعود کو شامل کیا جائے۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دونوں ججز کے بنچ میں شامل کرنے سے غیرجانبداری کا تاثر آئے گا اور اس اقدام سے عوام اور وکلاء برادری اہم معاملے کی سماعت کرنے والے بنچ پر سوال نہیں اٹھا سکے گی۔