سیلاب : سیاسی اختلافات کی وجہ سے بحالی کے اقدامات کتنے متاثر ہوئے ؟
نبی جان اورکزئی
گزشتہ سال اگست میں آنے والے سیلاب نے سے جہاں ملک کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچا، اور آج بھی ملک کے بیشتر حصوں میں متاثرین سیلاب کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں وہاں تحریک انصاف کی سابق صوبائی حکومت اور وفاق کے درمیان سیاسی جنگ تادم آخر جاری رہی اور آج بھی پی ڈی ایم کی مرکزی حکومت اور پاکستان تحریک انصاف باہم مشت و گریبان ہیں۔
وفاق اور خیبر پختونخوا کی سابق حکومت کے درمیان اس جنگ کے متاثرین سیلاب اور ان کی بحالی کیلئے کی جانے والی کوششوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے، اس حوالے سے ٹی این این نے سینئر صحافی و تجزیہ کار محمود جان بابر کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا جس کی تفصیل قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔
سوال: ہمارے صوبے اور وفاق کے درمیان جو اختلافات ہیں یا جو جنگ ہے آپ کے خیال میں اس سے متاثرین سیلاب یا سیلاب کے بعد بحالی کے جو کام جاری ہیں وہ کتنی حد تک متاثر ہوئے ہیں؟
محمود جان بابر: صوبے اور وفاق کے درمیان یہ جو سیاسی جنگ جاری ہے اس کا سب سے زیادہ نقصان متاثرین سیلاب کو ہوا ہے اور اس صوبے کے لوگوں کا ہوا ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ خود وفاق اس صوبے کو اپنا حق نہیں دیتا جبکہ صوبہ اپنا حق لینے کے لئے وفاق سے رجوع نہیں کرتا تو یہ حق ان صوبوں کو مل گیا، مطلب بلوچستان کو مل جائے گا، اور یہ سندھ کو مل جائے گا، جب وزیر اعظم اس صوبہ کے دورے پر آئے، سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں وہ جاتے رہے تو وہاں یہ لوگ ان کے ساتھ موجود ہوتے تھے تو وفاق کو بھی یہ نظر آ رہا تھا کہ یہ لوگ اس وقت اس معاملہ میں ہمارے ساتھ کھڑے ہیں اور یہ ہم سب مل کر حل کریں گے تو اب جو کچھ بھی ملتا ہے تو انہیں بھی اپنا حصہ ازخود ملے گا۔
سوال: سیلاب کے متاثرین اور ان کی بحالی کے لئے وزیر اعظم شھباز شریف نے دس ارب روپے کا اعلان کیا تھا لیکن ہمارے جو صوبائی وزیر خزانہ ہیں (سابق) تیمور سلیم جھگڑا، ان کا کہنا تھا کہ ان پیسوں میں اب تک ہمیں ایک روپیہ بھی نہیں ملا تو آپ کے خیال میں ہمارا صوبہ اس وقت متاثرین سیلاب کو جو امداد فراہم کر رہا ہے، یہ امداد کس مد میں اور کیسے کر رہا ہے؟
محمود جان بابر: میں نے کبھی اپنی زندگی میں یہ نہیں دیکھا کہ کوئی کسی کے حصے کے پیسے لے کر اس کے گھر گیا ہو، ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ اس میں وفاق کی کمزوری ضرور ہے، روپے میں چھ آنے، لیکن اس میں اک روپے میں دس آنے صوبہ ذمہ دار ہے کہ انہوں نے وہ پیسے مانگنے/لینے کے لئے کبھی وفاق کے ساتھ کوئی نشست ہی نہیں کی ہے، اس طرح کی کوئی اگر نشست ہوئی بھی ہے تو میری معلومات کے مطابق تو نہیں ہوئی۔
سوال: جنیوا میں ایک کانفرنس ہوئی جس میں پاکستان کے لئے بہت سے پیسوں کے اعلانات بھی ہوئے لیکن ہمارے تب کے صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے کہا تھا کہ اس کانفرنس میں وزیر اعظم شھباز شریف کی جگہ اپنے صوبے کی نمائندگی وہ خود کریں گے، تو کیا آپ سجھتے ہیں کہ دیگر صوبوں کے جو نمائندگان تھے وہ بھی جاتے یا نہیں صرف اِنہوں نے ہی ہمارے صوبے کی نمائندگی کرنا تھی؟
محمود جان بابر: اب ایسا ہے کہ بین الاقوامی فورم پر بھی اگر یہ وزیر اعظم سے الگ بیٹھتے تو آپ مجھے یہ بتائیں کہ وہاں جو لوگ جمع ہوئے تھے وہ پاکستان کے ساتھ مل بیٹھنے کے لئے جمع ہوئے تھے خیبر پختونخوا کے ساتھ بیٹھنے کے لئے نہیں، ہاں اگر ہمارے صوبوں کے حوالے سے اگر کوئی بات ہوتی تو وہاں یہ بات کر لیتے لیکن اس سے ایک اچھا پیغام نہ جاتا، اس سے ملک کے اندر بھی اچھا پیغام نہیں جاتا، یہ عمران خان کا وہ بیانیہ ہے جس نے اس وقت ملک کے ہر شہری کو پریشان کر رکھا ہے۔
سوال: جنیوا میں جو کانفرنس ہوئی اس سے ہمارے صوبے کو براہ راست کیا فائدہ مل سکتا تھا؟
محمود جان بابر: اگر صوبوں کے حوالے سے اس میں کوئی بات ہوتی اور یہ اس حوالے سے کچھ کہتے تو ٹھیک تھا لیکن اگر ملک کی سطح پر بات ہو رہی تھی تو میرے خیال سے وہاں تیمور سلیم جھگڑا کے ہاتھ کچھ نہ آتا، اس کی جو سب بڑی وجہ ہے وہ یہ ہے کہ جو ریاست ہوتی ہے اس کے ساتھ بات کی جاتی ہے اور وہاں ریاست کی نمائندگی وزیر اعظم شھباز شریف کر رہے تھے، میرے حساب سے اگر یہ آپس میں مل بیٹھ جاتے تو دنیا کو اچھا پیغام دیا جا سکتا تھا۔