جرائملائف سٹائل

زنانہ پولیس خواتین کو تحفظ کا احساس دلانے میں کتنی حد تک کامیاب ہو سکتی ہے؟

نسرین جبین

شاہدہ روتی ہوئی دروازے میں داخل ہوئی اور میرے پاس بیٹھتے ہی اپنے بازووں ،پیٹ اور جسم کے دوسرے حصوں پرلگے زخم کے نشان دکھاتے ہوئے کہنے لگی کہ باجی آپ پڑھی لکھی ہیں میری مدد نہیں کر سکتی۔ میرا شوہر مجھے مارتا پیٹتا ہے گالم گلوچ کرتا ہے اور بدکرار جیسے کئی الزامات لگاتا ہے میں تو گھر گھر کام کرتی ہوں عزت کی روٹی کماتی ہوں اور میری تنخواہ پر بھی میرا اختیار نہیں ہے اگر میں مزدوری کرکے اس کا ساتھ دیتی ہوں لیکن وہ تو صرف لڑتا اور مارنے کو دوڑتا ہے۔

شاہدہ کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے اور جب پیمانہ بھر گیا تو ٹپک پڑا اور اسکی آواز بھی بھر آئی کچھ لمحے کے لیے چپ ہو گئی اپنے پھٹے ہوئے دوپٹے سے چہرے پر بکھرے بے بسی کے آنسو صاف کر لیے پھر اپنی داستان سناتے ہوئے بولی کافی جرگے ہوئے لیکن وہ ویسے کا ویسا ہی ہے کئی لوگوں نے مشورہ دیا کہ تھانے جا کر شکایت کروں لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے تھانے جاکر میں کس کو اپنے زخم دکھاوں وہاں بھی تو سارے مرد ہیں ابھی میں تھانے سے واپس گھر نہیں آئی ہونگی تو طلاق کا زہر مجھے پلا دیا جائے گا۔

وہ اپنی کہانی سناتی ہوئی کہنے لگی کہ میرا شوہر اس کے گھر والے اور سارا معاشرہ تو مجھے ہی قصور وار سمجھے گا اور تھانے میں بھی تو سارے مرد ہیں مرد تو مردوں سے ہی بات کرتے ہیں نا میری بات کون سنے گا بس میں اس طرح مار برداشت کرلوں گی لیکن تھانے نہیں جاوں گی ہمارے لوگ بہت برا سمجھتے ہیں کسی غیر مرد کو اپنے شوہر کے خلاف بات کرنے والی خواتین کو اور تھانے یا کسی بھی جگہ شوہر کی شکایت کرنے والی عورت کو، پھر اسے اپنے ساتھ نہیں رکھنا چاہتے تو میں کہا جاوں گی نا تعلیم ہے نا پیسے ہیں کیا کروں گی بس خیر ہے ایسے ہی زندگی گزار لوں گی زیادہ گزر گئی ہے تھوڑی رہ گئی ہے بچے بڑھے ہو جائیں گے تو مسلے حل ہو جائیں گے۔

شاہدہ ہر دو تین ماہ بعد انہی حالات میں اسی طرح گزشتہ پانچ سال سے میرے گھر آ کریہی رونا روتی ہے لیکن اپنی مدد خود نہیں کرنا چاہتی۔

شاہدہ کی طرح ہزاروں نہیں لاکھوں خواتین مار پیٹ ،نا انصافی، زیادتی، حق تلفی اور ناجانے کیا کیا کچھ برداشت کرتیں اور اپنی جان پر سہتی ہیں جبکہ ان میں سے کئی اپنی زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔

شاہدہ کی طرح کی ہی کہانیاں ہمیں اپنے ارد گرد گھروں میں کام کرنے والی یا ملازمت پیشہ خواتین یا پھر گھریلو خواتین کی نظر آتی ہیں اکثر کو تو اپنے حقوق اور فلاحی اداروں کا علم ہی نہیں اور اگر ہے بھی تو ان کی وہاں جانے کی استطات اور جرات ہی نہیں ہوتی ، ہمارے معاشرے میں خواتین کی اکثریت اپنے کسی بھی حق کے حصول اور زیادتی کے تدارک کے لیے تھانے تو جانا ہی نہیں چاہتی اسکی دیگر بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن ان میں ایک یہ بھی ہے کہ خواتین کی اکثریت کی سوچ یہ ہے کہ وہاں ہمیں مردوں سے بات کرنی پڑے گی ہمارے جیسے معاشرے میں پلی بڑھی خاتون جسے عام طور پر مردوں سے عام بات کرنے کی اجازت اور مواقع دستیاب نہیں ہوتے ایسے میں جب وہ جسمانی، نفسیاتی اور ذہنی طور پر کسی نا کسی اذیت کا شکار ہو کر تحفظ کے لیے ہی تھانے کا رخ کرتی ہیں تو انہیں کئی معاشرتی رویئے اور سوچیں گھر میں ہی رہنے اور سختیاں سہنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

مار پیٹ ،نا انصافی، زیادتی، حق تلفی جیسے مسائل میں گھری خواتین کو ان مسائل سے چھٹکارہ دلانے اور انہیں اپنے حقوق کے حصول کے لیے راہیں ہموار کرنے کے لیے جہاں اور بہت سے اقدامات ضروری ہیں وہاں تھانہ کلچر کو خواتین کے لیے بہتر بنانے بلکہ فرینڈلی بنانے کے اشد ضرورت ہے۔

قبل ازیں اگرچہ اقدامات تو ہوتے رہے ہیں لیکن ہمارے جیسے معاشرے میں وہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے تاہم اگر محکمہ پولیس میں خواتین کے لیے دیگر سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ خواتین پولیس کی تعداد بڑھائی جائے تو متاثرہ خواتین نسبتا بہتر انداز میں اپنے خلاف ہونے والے جرائم کو رپورٹ کرنے اور اپنے مسائل کے حل کے لیے رابطہ کر سکیں اور یہ اقدامات معاشرے میں جرائم کی بیخ کنی میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہونگے خصوصی طور پر ایسے جرائم جو کہ خواتین سے متعلق کیے جاتے ہیں۔

خیبرپختونخوا کے 5 اضلاع میں 494 خواتین امیدواروں نے کامیابی سے فزیکل ٹیسٹ (رننگ) کوالیفائی کیا جبکہ 5 اضلاع میں 235 خواتین امیدواروں نے ای ٹی ای اے کے تحریری ٹیسٹ میں کامیابی کے ساتھ کوالیفائی کیا۔

پولیس میں خواتین کی بھرتی کے حوالے سے اقدامات

پولیس میں بھرتی اور تربیتی پروگرام برائے خواتین خواہشمند  روزان اور پولیس عوام ساتھ ساتھ (PASS) نے KP پولیس کے اشتراک سے "خواتین کے خواہشمندوں کے لیے پولیس بھرتی اور تربیتی پروگرام” کے عنوان سے ایک پروجیکٹ شروع کیا ہے تاکہ KP حکومت اور KP پولیس کے خواتین کو بڑھانے کے عزم پر عمل کرتے ہوئے KP پولیس میں خواتین کی بھرتی میں اضافہ کیا جا سکے۔

"خواتین کے خواہشمندوں کے لیے پولیس بھرتی اور تربیتی پروگرام” کے نام سے شروع ہونے والے اس پروگرام کا مقصد پنجاب اور کے پی پولیس میں کانسٹیبل اور اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) کی سطح پر خواتین بھرتیوں کی تعداد میں اضافہ اور پنجاب اور کے پی کی کمیونٹیز میں خواتین پولیس کے امیج کو بہتر بنانا ہے۔

اس حوالے سے غیر سرکاری تنظیم روزان کے پروگرام مینجر محمد علی کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے تحت روزان نے پولیس میں خواتین کی بھرتی کے لیے 5 اضلاع یعنی پشاور، مانسہرہ، ایبٹ آباد، سوات اور ہری پور میں کے پی پولیس کو منتخب کیا اور ان کی معاونت کی۔

ان اضلاع میں مداخلت کے تحت روزان نے مختلف سرگرمیاں کیں جن میں 25 گورنمنٹ میں 27 حوصلہ افزا پروموشنل سیمینار شامل ہیں۔

کے پی کے 5 اضلاع میں گرلز ڈگری کالجز جن میں 4,692 طالبات تک رسائی حاصل کی گئی، 25 حکومت میں گرلز ڈگری کالجز میں دلچسپی رکھنے والے امیدواروں کی رہنمائی کے لیے سہولت ڈیسک قائم کیے گئے تھے تاکہ خواتین آگاہی اور معلومات حاصل کرلیں اور اس شعبے میں شمولیت اختیار کریں۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کی بھرتی کا طریقہ تبدیل کیا جانا چاہیئے بہت سی خواتین اس شعبے میں آنا چاہتی ہیں لیکن انہیں معلوم ہی ہوتا کہ کب اشتہار آیا اور بہت کم دنوں بعد ہی تاریخ گزر گئی اور وہ د خواست دینے سے رہ کاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھرتی کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی لانی ہوگی اور مزید کچھ سہولتیں خواتین کو دینی ہونگی تاکہ اس شعبے میں خواتین کی تعداد کو بڑھایا جاسکے جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس سے جہاں معاشرے کی خواتین کو تحفظ کا احساس ہوگا وہاں جرائم کی شرح بھی کم ہونے کے ساتھ معاشرتی مسائل کے حل میں بہتری آنے کی امید ہے اوردوسری طرٖف خواتین کو معاشی اور معاشرتی طور پر خوش حال ہونے بھی مدد ملے گی خواتین کی ایک بڑی تعداد معاشی طور پر خوش الحال ہو جائے گی۔

شعبہ صحافت پشاور یو نیورسٹی کی بی ایس کی طالبہ مومینہ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پولیس کے شعبے میں خواتین کی تعداد میں اضافہ اس لیے ضروری ہے کہ یہ شعبہ جرائم سے متعلق ہے اور جو خواتین کسی بھی قسم کے جرم کا شکار ہوتی ہیں تو ان کو جسمانی ذہنی اور نفساتی تمام طرح کے مسائل سے ایک ہی وقت میں گزرنا پڑتا ہے جس کے باعث اگر اس وقت میں ان کے ساتھ کوئی بھی ایسا واقع پیش آ جائے جو اسے مزید مشکلات سے دوچار کر دے یا پھر اس کا مدعا بتانے میں پریشانی ہو یا اس حوالے سے وہ آسانی محسوس نا کرے تو پھر شائد اس کے ساتھ انصاف نا ہوسکے کیونکہ ھمارے معاشرے میں خواتین کی شرح تعلیم کم ہے ایک بڑی تعداد کو اپنے حقوق کا علم نہیں انہیں اظہار رائے کی آزادی نہیں گھومنے پھرنے اور معاشرے کا مشاہدہ کرنے کی آزادی نہیں ایسے میں جب وہ عام حالات میں پر اعتماد ہو کر آسانی سے گھر سے باہر آ جانا سکیں کام نا کر سکیں تو پھر اگر ان تمام حالات میں ان کے ساتھ کوئی جرم پیش آ جاتا تو وہ کس طرح انصاف حا صل کر سکیں گی کیونکہ وہ تو مردوں سے ٹھیک طرح سے بات تک نہیں کر پاتیں تو ان حا لات میں اپنا مدعا کیسے درست بیان کر پائیں گی۔

انہوں نے بتایا لہذا ھمارے جیسے معاشرے پولیس کے شعبے میں خواتین کا بھرتی ہوںا زیادہ ضروری ہےکیونکہ ایک عورت پورا گھر کا نظام چلا رہی ہوتی ہے اور اس کے ساتھ پیش آنے وال جرم یا سزا نا صرف اس کو بلکہ پورے گھرانے کو ملتی ھے خواتین اپنی شکایت لے کر خواتین پولیس کے پاس پر اعتماد ہو کر اور جائیں گی دوسری طرف خواتین پولیس میں بھرتی ہو کر خواتین کی ایک بڑی تعداد ایک محفوظ روزگار حاصل کر سکیں گی جو کہ انہیں اعتماد دے گا جبکہ محکمہ پولیس میں بھرتی کے زیادہ سے زیادہ مواقع خواتین کو فراہم کیے جائیں اور انہیں سہولتیں دی جائیں۔

ایڈووکیٹ سیدہ صائمہ جعفری نے کہا کہ میں 15سال سے پریکٹس کر رہی ہوں میرے پاس اکثر خواتین ہی آتی ہیں وہ سمجھتی ہیں کہ میں چونکہ ایک خاتون ہوں تو ان کے مسائل کو بہتر طریقے سے حل کر سکتی ہوں یہی معاملہ پولیس کے محکمے کے ساتھ بھی ہے ہمارے معاشرے میں خواتین ظلم سہتی رہتی ہیں اور تھانے جا کر جرم کی شکایت کرنا کا سوچ بھی نہیں سکتیں لیکن اگر وہ اتنا سوچ بھی لیتی ہے اور ہمت کر لیتی ہے تو اور گھر سے نکل آتی ھے کہ میں پولیس کی مدد لوں یا پھر اپنی رپورٹر درج کروں تو کم از کم اس کو وہاں اس کو سننے والی ایک لیڈی پولیس ضرور ہو جو اس کے مسلے کو سمجھ کر سنے اور اس کے ساتھ جینڈر کے حساب سلوک کرے۔

انہوں نے بتایا کہ اس لیے بھی خواتین کی تعداد پولیس میں بڑھائی جانی چاہیئے کہ جب چھاپہ زنی کرتے ہیں تو خاتون کا ساتھ ہونا لازمی ہے جبکہ اگر ایسا نا ہو تو ہم کئی قسم کے شواہد گنوا بیٹھتے ہیں گھر کی تلاشی کے دوران خواتین پولیس گھر میں جانے کی اجازت ہوتی ہے لہذا کم از کم محکمہ پولیس میں ملک کی آبادی کے تناسب سے آدھی تعداد خواتین پولیس کی رکھی جائے ڈیپارٹمنٹ کوئی بھی برا نہیں ہے پولیس ڈیپارٹمنٹ میں تو پھر بھی خواتین کو بھی اپنا دفاع کرنا سکھایا جاتا ہے اپنے حقوق اور ملکی قوانین کی آگاہی دی جاتی ہے سیکیورٹی کی تمام تر تربیت دی جاتی ہے تو اس طرح ایک عام عورت کی بجائے ایک پولیس والی چھوٹے عہدے سے لے کر ایک بڑی افسر بننے تک نسبتا زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے اس سے اس کو بہت فائدہ ہوتا ہےخواتین کو محمکہ پولیس بھی ایک فرض شناس، محنتی اور ذہین خاتون کی خدمات حاصل ہو جاتی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button