”سیلاب نے مویشیوں سے محروم، دودھ بیچنے پر مجبور کر دیا”
اقبال کاکڑ
سنزاوی کے رہائشی محمد آیاز در در اور گاؤں گاؤں کی خاک چھان رہے ہیں، پاچ ماہ قبل وہ اپنے مویشیوں کا دودھ بیچا کرتے تھے لیکن اب دگنی محنت مگر آدھے منافع سمیت پرائے مال مویشی پال کر اور ان کا دودھ بیچ کر اپنے لئے دو وقت کی روٹی کمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
”جب جون جولائی میں بارشیں ہوئیں تو اس کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے اک تو ہمارا گھر تباہ ہوا دوسرے ہمارے مال مویشی بھی بہا لے گیا، ان کو ختم کر دیا، اب گاؤں میں پھرتا ہوں اور یہ کام شروع کر رکھا ہے، صبح گھر سے نکلتا ہوں، سکوٹر خریدی ہے، وہ بھی قسطوں پر خریدی ہے، صبح صبح گاؤں سے دودھ جمع کرتا ہوں، پانچ دس روپے اس میں سے بچ جاتے ہیں، بس یومیہ چار سو، پانچ سو، یا ساڑھے تین سو کما کر گھر لاتا ہوں اور وہی خرچ کرتے ہیں، یہی ہماری آمدن ہے۔” محمد آیاز نے ٹی این این کو بتایا۔
ناگہانی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں گزشتہ سال آںے والے سیلاب کی وجہ سے مجموعی طور پر 15 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے۔
ترجمان پی ڈی ایم اے مقبول جعفر کے مطابق مذکورہ عرصہ کے دوران چار لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ پانچ لاکھ کے قریب چھوٹے بڑے مویشی بھی ہلاک ہوئے ہیں، ”لائیوسٹاک کی بات کی جائے تو چار لاکھ 34 ہزار 424، اور ایگریکلچر کی بات کی جائے تو چار لاکھ 75 ہزار 721 اعشاریہ تین ایکڑ، یہ جو ہے نا تباہی ہوئی ہے۔”
محکمہ لائیوسٹاک زیارت کے ڈائریکٹر محمد دین نے بتایا کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات سے متعلق تفصیلی رپورٹ جمع کرائی ہے تاہم صوبائی حکومت کی جانب سے تاحال انہیں کوئی فنڈ جاری نہیں کیا گیا ہے، ”یہاں سروے کرایا گیا ہے لیکن سروے کرانے کے بعد تاحال ڈسٹرکٹ کو کسی قسم کا کوئی فنڈ نہیں دیا گیا۔”
خوراک اور زراعت پر کام کرنے والے ھیمز نامی ایک عالمی ادارے کی 2022 کی ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق 78 فیصد آبادی کا دارومدار زراعت اور لائیوسٹاک پر ہے جبکہ گزشتہ دو دہائیوں سے جاری قحط سالی سے بلوچستان کے 80 فیصد باغات بری طرح سے متاثر ہوئے ہیں۔
دوسری جانب صوبائی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق مون سون کی بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے محولہ بالا تباہی اور بھی زیادہ کر دی ہے۔