اپر کوہستان: سیلاب سے سینکڑوں گھر تباہ، متاثرین کس حال میں ہیں؟
متاثرین ٹھنڈے موسم میں بھی خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور
گزشتہ سال اگست میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے ملک کے دیگر حصوں کی طرح خیبر پختونخوا کا دوردراز علاقہ ضلع اپرکوہستان بھی متاثر ہوا۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پراونشل ڈزاسٹر منیجمنٹ (پی ڈی ایم اے) کی ایک رپورٹ کے مطابق سیلاب نے اس پہاڑی علاقے میں 433 مکانات کو نقصان پہنچایا ہے جن میں سے 105 گھر سیلاب کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہوئے جبکہ 328 مکانات کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے جبکہ یہ متاثرین تب سے خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں ان متاثرین کا کہنا تھا کہ ان کا کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے تاہم حکومت نے تاحال ان کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعاون نہیں کیا ہے۔
سیلاب سے متاثرہ شاہ فیصل نامی ایک شخص نے اس حوالے سے ٹی این این کو بتایا، ”ہم کافی بھائی رہتے تھے، 15، 16 کمرے ہمارے مکانات تھے، وہ سارے سیلاب کی نذر ہوئے ہیں اور ابھی بھی وہاں پر پانی ہے، جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو حکومت کی طرف سے ابھی تک ہمیں گھروں کا معاوضہ وغیرہ بالکل بھی نہیں ملا ہے نہ کسی ادارے کی طرف سے ملا ہے، ہم ابھی خیموں میں رہائش پذیر ہیں، بہت مشکلات ہیں بچوں کو، عورتوں کو، بوڑھوں کو!”
کوہستان خیبر پختونخوا کا ایک ٹھنڈا علاقہ ہے اور سردیوں میں یہاں خیموں میں رہنا ممکن نہیں ہے، اوپر سے سڑکوں اور پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہاں زندگی گزارنا اور بھی دشوار ہو گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ متاثرین میں سے بعض یہاں سے عارضی طور پر نقل مکانی کر چکے ہیں۔
اس حوالے سے سیف اللہ نامی ایک شخص نے بتایا، ”صرف گھر کا مسئلہ نہیں ہے، واٹر سپلائی، فرض کریں واٹر چینلز ٹوٹ گئے، بجلی ختم ہو گئی، جو راستے تھے تو وہ راستے ختم ہو گئے جن پر آپ لکڑی لاتے تھے، بندہ کیسے گزارہ کرے گا، پانی کے بغیر تو گزارہ نہیں ہوتا، لکڑی کے بغیر وہاں پر گزارہ نہیں ہوتا تو اب ان حالات میں مجبوری تھی ہم آدھے لوگوں نے مائیگریشن کی آدھے وہاں رہتے ہیں اور ان کو بھی تکلیف بہت زیادہ ہے۔”
کوہستان سے منتخب صوبائی اسمبلی کے سابق رکن دیدار خان نے بتایا کہ سابق حکومت کی جانب سے بحالی کی کوششیں جاری رہیں لیکن علاقہ چونکہ پہاڑی ہے اور سڑکیں خراب ہیں تو امدادی کارروائیاں سست روی کا شکار رہیں، ”جو مین شاہراہ ہے وہ ابھی تک بحال نہیں ہوئی، جتنا بھی نقصان ہوا اس حوالے سے ہم نے ایک تفصیلی سروے کرایا، قریباً ایک ارب روپے سے اوپر اوپر کا نقصان ہوا تھا، صوبائی حکومت کے ساتھ ہم نے رپورٹ جمع کرائی تھی، جتنا بھی کام ہو رہا تھا اس میں ہماری پہلی ترجیح یہ تھی کہ سب سے پہلے سڑکوں کو بحال کیا جائے، باقی ہمارے واٹر چینلز تباہ ہوئے، لوگوں کے گھر تباہ ہوئے، سابق صوبائی حکومت نے ان گھروں کا خصوصی طور پر سروے کرایا اور امید ہے کہ جلد ان لوگوں کو معاوضوں کی ادائیگی کر دی جائے گی جو ابھی تک ہوئی نہیں ہے۔”
اپر کوہستان کے ساتھ ساتھ لوئر کوہستان اور کولئی پالس میں بھی سیلاب نے سینکڑوں گھروں کو تباہ کیا ہے جبکہ متاثرین اس ٹھنڈے موسم میں بھی خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور رہے، ان متاثرین نے اس سلسلے میں حکومت سے تعاون کا مطالبہ کیا ہے۔