زلزلے، پاکستانیوں کی پیشن گوئیاں اور تبصرے
حمیرا علیم
ہمارے ہاں جہاں بہت سی بیماریاں عام ہیں وہیں پر کا کوا بنانے اور دوسروں کو جج کرنے کا کریز بھی موجود ہے؛ کوئی واقعہ ہو ہم میں سے ہر ایک عالمی سطح کا تجزیہ نگار بن کر ایسے ایسے تبصرے اور پیشن گوئیاں کرتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
ایسا ہی کچھ ترکیہ اور شام کے زلزلے کے بعد ہوا ہے۔ پاکستانیوں نے ججمنٹ اور پیشن گوئیوں کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے نہ صرف آنے والے چند دنوں میں پاکستان میں بھی ترکیہ جیسے ہولناک زلزلے کی وعید سنائی بلکہ ترکیہ کے زلزلے کو ان کے اعمال کے نتیجے میں آنے والا عذاب بھی قرار دیا۔
ایک اور رائے یہ بھی تھی کہ امریکہ نے ترکی کو نیچا دکھانے، جھکانے اور آئی ایم ایف سے قرض لینے پر مجبور کرنے کے لیے یہ زلزلہ پیدا کیا جس کے بارے میں ماہرین کی آراء یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے، اگر کوئی ہلکا سا زلزلہ بھی پیدا کرنا چاہے تو اس کے لیے ایٹمی دھماکے کی ضرورت ہوتی ہے پھر بھی زلزلہ صرف 2 میگنیٹیوڈ کا ہو گا۔ اتنے بڑے لیول کازلزلہ صرف قدرت کے ہاتھ میں ہے۔
مانا کہ قرآن و حدیث زلزلوں کو عذاب کہتے ہیں مگر قابل غور بات یہ ہے اللہ تعالی اسے اپنی نشانی بھی فرماتا ہے: "ہم تو لوگوں کو ڈرانے کے لیے ہی نشانیاں بھیجتے ہیں۔” (الاسراء 59)
ایسی نشانی جسے اس لیے بھیجا جاتا ہے تاکہ لوگ اپنے رب سے رجوع کریں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر اپنے اعمال کو سدھاریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دنوں بہت سارے ممالک میں جو زلزلے آ رہے ہیں وہ انہیں نشانیوں میں سے ہیں۔ اور ان کا مقصد اللہ کے بندوں کو یاد دہانی کروانا ہے۔ لیکن صد افسوس کہ ہم ان سے عبرت پکڑنے اور اپنے اعمال کی درستگی کی بجائے دوسروں کے اعمال کا احتساب کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ جبکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ پانچ اشخاص شہید ہیں:
1: جو طاعون سے مرے۔
2: جو پیٹ کے عارضے سے مرے۔
3: جو ڈوب کر مرے۔
4: جو دب کر مرے۔
5: جو اللہ کی راہ میں شہید ہو ۔ (نصرالباری کتاب الجھاد)
ترکیہ کے صدر رجب طيب اردوگان نے چند ماہ قبل ايک بہت بڑے مجمع ميں تقرير کرتے ہوئے ايک واقعہ سنايا، مجمع نے بہت غور سے اسے سنا: ”ميں آپ لوگوں کو تاريخ کا ايک واقعہ سنانا چاہتا ہوں۔ منگول سلطنت کے بانی چنگيز خان کے پوتے کا نام ہلاکو تھا، اس نے بغداد پر قبضہ کيا اور اسے پوری طرح لوٹ ليا۔ بعض حوالوں کے مطابق اس نے دو لاکھ اور بعض کے مطابق چار لاکھ انسانوں کو قتل کيا۔ اس نے بغداد کی ساری قديم مسجديں، مکاتب اور محل ڈھا ديئے۔ يہ ساری قيامتيں ہلاکو نے برپا کيں۔
اسی ظالم حکمراں نے جو بہت دور سے آيا تھا ايک حکم جاری کيا کہ وہ بغداد کے سب سے بڑے عالم سے ملنا چاہتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ کوئی عالم ہلاکو سے ملنے کے ليے تيار نہيں ہوا، آخرکار کادہان نام کا ايک کم عمر نوجوان جس کی ابھی داڑھی بھی نہيں نکلی تھی اور ايک مدرسے ميں معلم تھا ہلاکو کا سامنا کرنے کے ليے راضی ہو گيا۔
ہلاکو سے ملنے کے ليے جاتے ہوئے کادہان نے اپنے ساتھ ايک اونٹ، ايک بکرا اور ايک مرغا بھی لے ليا۔ نوجوان عالم کادہان، ہلاکو کے خيمے کے پاس پہنچا، اور ہلاکو سے ملنے اندر چلا گيا۔
ہلاکو نے نوجوان عالم سے پوچھا: مجھ سے ملنے اور ميرا سامنا کرنے کے ليے بغداد والوں کے پاس تمہارے سوا کوئی اور نہيں تھا؟ کادہان نے جواب ديا کہ اگر آپ مجھ سے بڑے سے ملنا چاہتے ہيں تو باہر ايک اونٹ موجود ہے، اگر داڑھی والا چاہتے ہيں تو باہر ايک بکرا موجود ہے، اور اگر بلند آواز والا چاہتے ہيں تو باہر ايک مرغا بھی موجود ہے، آپ جسے چاہيں بلا ليں۔ ہلاکو بھانپ گيا کہ اس کے سامنے کھڑا ہوا شخص کوئی عام آدمی نہيں ہے۔ تب ہلاکو نے اس سے پوچھا يہ بتاؤ کہ ميرے يہاں آنے کی وجہ کيا ہے؟
نوجوان نے اسے بہت گہرا جواب ديا، اس نے کہا: ہمارے اعمال اور ہمارے گناہ تمہيں يہاں لائے ہيں ہم نے اللّٰہ کی نعمتوں کی قدر نہيں کی اس کی نافرمانيوں ميں آگے بڑھتے گئے۔ دنيا، مال و دولت اور زمين جائيداد ہمارے دلوں ميں رچ بس گئے اس ليے اللہ نے آپ کو ہمارے پاس اپنا عذاب بنا کر بھيجا ہے تاکہ اس نے ہميں جو نعمتيں دی تھيں وہ ہم سے واپس لے لے۔
يہ جواب سن کر ہلاکو نے دوسرا بڑا عجيب سوال کر ديا: مجھے کون يہاں سے نکال سکتا ہے؟ نوجوان نے جواب ديا: جب ہم نعمتوں کی قدر جان ليں گے، ان کا شکر ادا کرنے لگيں گے اور آپس کے اختلافات ختم کر ليں گے تو اس وقت پھر آپ يہاں ہرگز نہيں رہ سکيں گے۔”
ضرورت اس امر کی ہے کہ دوسروں کی کمیوں کوتاہیوں پر نظر رکھنے اور ان کا احتساب کرنے کی بجائے اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور اپنی خرابیوں کو دور کر کے اللہ کے اطاعت گزار بنیں تاکہ اس کے غضب کے مستحق ہونے کی بجائے اس کے انعام و اکرام سے لطف اندوز ہو سکیں۔ اللہ تعالٰی سب کا حامی و ناصر ہو!