وہ دن دور نہیں جب پشاور پھر سے پشاور بنے گا
اے وسیم خٹک
یہ شاید 2000 کا کوئی دن تھا جب ہم نے پشاور کا قصد کیا۔ یہ شہر ایک انسیت رکھتا تھا جس کی بنیادی وجہ شاید یہ تھی کہ یہاں سے وہ اخبار نکلتا تھا جس میں ہم بچوں کی کہانیاں لکھا کرتے تھے۔ لاہور سے نکلنے والے میگزین بہت کم ہی سرحد (اب خیبر پختونخوا) کے لکھاریوں کو توجہ دیتے تھے، پھر نو اموز لکھاریوں کو تو کوئی گھاس بھی نہیں ڈالتا تھا تو چار و ناچار ایک آپشن پشاور سے نکلنے والا اخبار مشرق ہی بچتا تھا جس میں لکھنا شروع کیا یعنی بچوں کا لکھاری بن کر ابتدا کی۔ اور پھر لاہور کے بڑے بڑے میگزین میں کہانیاں چھپ گئیں جو کہ ایک خوشی کا مقام ہھا۔
یہی انسیت پشاور سے محبت کا سبب بنی جس نے مجھے لکھنے پر مجبور کیا اور جتنا بھی آج تک لکھا ہے اس میں پشاور کا بڑا ہاتھ ہے۔ میری پہلی ملاقات بھی پشاور میں بچوں کے صفحے کے انچارج زبیر علی شاہ سے ہوئی جس کے لئے 1995 میں اسپیشل پشاور آیا تھا، جب میٹرک کا طالب علم تھا۔ پھر قسمت یونیورسٹی تک لے آئی تو پشاور ٹھکانہ بنا جہاں سے ڈگری لے کر لکھنا بھی شروع کیا۔ پہلا کالم پانچواں بھی پشاور کے ایک اخبار میں لکھا اور پہلی ملازمت بھی خبریں سے شروع کی، پھر درمیان میں کچھ عرصہ کے لئے پشاور چھوڑ گئے۔
پھر ایک وقت آیا کہ پشاور نے پھر مجھے اپنی آغوش میں لیا اور ہم پشاور کی صحافت میں عملی طور پر دوبارہ داخل ہو گئے۔ اور یہ وہ وقت تھا جب پشاور لہولہان تھا۔ یہاں دھماکے اتنے زیادہ ہوتے تھے کہ ہم صحافت کرنے والے تھک گئے تھے مگر دھماکے کرنے والے کس مٹی کے بنے تھے کہ انہیں تھکاوٹ ہی نہیں ہوتی تھی۔ پشاور نے اس دور میں جتنی تباہی دیکھی، کوئی دن نہیں ہوتا تھا جب کہیں دھماکے کی گونج نہ سنائی دی ہو۔ ہر جمعہ دھماکے کے لئے منتظر ہوتے، کوئی دن ایسا نہ ہوتا جب پشاور شہر کے باسی لرزے نہ ہوں۔ اس شہر آشوب کے باسیوں نے بہت قربانیاں دیں اور اب بھی مختلف طریقوں سے قربانیاں دے رہے ہیں۔
2007 سے 2015 تک دہشت گردی کا جو دور تھا وہ پشاور کے ماتھے پر ایک داغ ہے۔ جب بھی اس وقت پشاور کا نام لیا جاتا تو بم سٹی کے نام سے جانا جاتا۔ ایک تربیت کے سلسلے میں ہالینڈ جانا ہوا، وہاں سب اپنے شہروں اور ملکوں کے بارے بتاتے کہ وہ کہاں کہاں صحافت کر چکے ہیں، جب ہماری باری آئی اور پاکستان کا نام لیا سب اتنے نہیں چونکے جب پشاور کا نام لیا سب کے اوسان خطا ہو گئے کہ وار سٹی میں رپورٹنگ کر کے آئے ہو۔ پھر ہم ہی محور گفتگو ہوتے ہم سے پوچھا جاتا کہ کیسی صحافت ہوتی ہے جب دھماکے ہوتے ہیں اور ہم بھی سینہ چوڑا کر کے کہتے تم لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے۔
یہاں مینا بازار جیسا، چرچ جیسا، پشاور پی سی جیسا، اے پی ایس جیسا، پشاور پریس کلب، مساجد، امام بارگاہ، خیبر بازار جیسا دھماکہ شاید ہی کہیں اور ہوا ہو اور لوگ پھر بھی سینہ کشادہ کئے اگلے دھماکے کے منتظر ہوں۔
وقت گزرتا گیا، تھوڑے حالات سنبھلے پھر اچانک تبدیلی آئی اور ایک دفعہ پھر پشاور حملوں کی زد میں آ گیا۔ گزشتہ سالوں میں پانچ سو سے زیادہ دہشت گردی کے واقعات ہوئے اور پھر پولیس لائن کا دھماکہ جہاں کرائم رپورٹنگ کرتے ہوئے روزانہ جانا ہوتا تھا۔ اس مسجد میں کتنی نمازیں پڑھیں اس کا اندازہ نہیں، وہاں دہشت گرد آ کر اے پی ایس کے واقعے کی یاد تازہ کر لیتے ہیں، جہاں سو سے زیادہ شہید تو دو سو سے زیادہ زخمی ہو جاتے ہیں۔
اب جب اس شہر کے مکینوں کی قربانیوں کو دیکھتا ہوں تو یہ شہر چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ اس شہر کے چپے چپے نے قربانی دی ہے۔ یہ قربانیوں کا شہر ہے جس کی تاریخ بہت وسیع ہے۔
اگر دیکھیں تو پشاور محض ایک خطے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ لفظ اور یہ نام اپنے پس منظر میں ایک ہمہ گیر ثقافت کی رعنائی بکھیرتا نظر آ رہا ہے، جس سے رشتوں کی تکمیل کی کہانی، احساسات کے نشیب و فراز کے حوالے اور پشتون قدروں کی خوشنمائی اور جاذبیت اپنی پورے وجود کو ثابت کرتی نظر آ رہی تھی لیکن گزشتہ موسموں نے اس شہر خوشنما کے بطن میں وسوسوں اور اندیشوں کی فصل کاشت کی ہے، اس شہر میں بے یقینی عام ہوئی، بے چہرگی کا سایہ ہر آدمی کے سراپے پر حاوی ہوتا چلا گیا۔
یقیناً یہ عجیب کیفیت سے دوچارگی کا مقام ہے، اس سے کئی اندیشوں نے جنم لیا۔ اس زرخیز خطے کا ماضی، حال اور مستقبل پر مبنی اثرات مرتب ہونے کا امکان موجود ہے۔ پشتون خطوں میں جہاں بھی ایسے حالات کا ادراک ہوا تو پشتون شعراء نے ا ن حالات کو امن، محبت اور خوشی میں بدلنے کے لئے اسے نہ صرف شعر کی زبان دے رکھی ہے بلکہ عملاًً بھی اس تحریک کا حصہ بنے۔
اگر پشتون خطے کے حالات اور ادب کے اس تسلسل کو رحمان بابا کے دور کے حالات تک لے جائیں تو رحمان بابا کا پشتو کا یہ شعر اس دور سے لے کر آج تک تمام حالات کو مفہوم بنا کر نظر آ رہا ہے
پہ سبب د ظالمانو حاکمانو
کور او گور او پیخور دری واڑہ یو دی
ہمارے بابا خوشحال خان خٹک نے کہا تھا کہ
لکہ دا خکلی دا پیخور دی
حسی بہ نہ وی بل دیار کے
آباسین یوسفزئی کے اس شعر کے تناظر میں دیکھا جائے تو شہر کے ان بدلتے موسموں کے ساتھ بندہ آسانی کے ساتھ مل جاتا ہے اور آشنا ہو جاتا ہے:
چہ پہ کالونو پکے یو بل سڑی نہ شی لیدی
موری دعا راتہ کوا زہ پیخور تا زما
اسی لئے تو مدتوں سے محبوب نے اپنے عاشق سے اس پشتون وطن کے روایتی سنگار کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ
لاڑ شہ پیخور تا قمیص تور ما لہ راوڑہ
لیکن بدقسمتی سے پھولوں اور رنگینیوں کے اس شہر نے جب بموں اور گولیوں کی گھن گرج سنی تو شاعر کے اس مضمون میں بھی تبدیلی آئی، باہر کے دشمنوں اور اپنے گھر کے غمازوں نے بھی اس شہر کے چہرے پر تھپڑ مارے ہیں اور اسے بدرنگ کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے اس لئے تو روخان یوسفزئی نے ان حالات کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ
ما باندی یارانو کرخے مہ راخکے
زہ خو د ہر چا یم پیخور یما
اس شہر کی ویرانیوں کو انسانی روح اور نفسیات قید کر چکی ہے اس لئے تو مرحوم ڈاکٹر صاحب شاہ صابر نے اس مضمون کو ایک حقیقی تصویر کی شکل دی ہے، وہ کہتے ہیں کہ
پہ پیخور داسی سہ چل شوے
چہ وسے پکے زڑہ بہ دی تنگ وی
پہ وجود کے بہ دی سا خفا وی
جس کی بنیادی وجہ اس شہر میں موجودہ حالات ہیں جہاں اب کوئی بھی بندہ دوبارہ خود کو محفوظ نہیں سمجھتا مگر اب ایسا نہیں ہو گا، پشاور کے لوگ اب مزید اس غم اور اندوہ کا شکار نہیں ہوں گے۔ گزشتہ روز پشاور پریس کلب کے سامنے ہونے والے امن مظاہرے نے پشاوریوں کی جانب سے طبل جنگ بجا دیا ہے، اب وہ دن دور نہیں جب پھر سے پشاور پشاور بن جائے گا اور یہ گانا زبان زد عام ہو گا کہ
لاڑ شہ پیخور تا قمیص تور ما لہ راوڑہ
تازہ تازہ گلونہ دری څلور ما لہ راوڑہ