ڈاکٹر محمد ہمایوں ہما
جمہوری ممالک میں انتخابات ہوتے رہتے ہیں؛ سکون سے ہوتے ہیں اور آرام سے گزر جاتے ہیں، نہ کوئی ہنگامہ نہ احتجاج، پرانے لوگ نئے آنے والوں کو مبارک سلامت کہہ کر رخصت ہو جاتے ہیں اور کاروبار مملکت شروع ہو جاتا ہے۔ یہ ہمارا ہی ایک ایسا بدقسمت ملک ہے کہ انتخابات سے پہلے بھی ایک بے یقینی کی فضا اور ہنگامہ خیز صورت حال پیدا ہو جاتی ہے اور بعد میں مسائل کا ایک انبار پڑا نظر آتا ہے۔
سب سے پہلی بات تو ہار ماننے والے مانتے نہیں اور جیتنے والے اپنے اقتدار کو بچانے کی فکر میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور عوامی مسائل کو توجہ نہیں دے پاتے۔
ان کا پہلا نعرہ یہ ہوتا ہے کہ پچھلے لوگوں نے جو گند چھوڑ رکھا ہے عوام ہم سے زیادہ توقعات وابستہ نہ کریں، ہم پہلے اس کوڑا کرکٹ کو صاف کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ ہر جیتنے والے کا منشور ہوتا ہے۔ گزشتہ 75 سال سے یہی ہماری جمہوریت کا حسن رہا ہے۔ ہمیں تو یہ فکر ہے کہ صفائی کا یہ سلسلہ 14 اگست 1947 تک نہ پہنچا دیا جائے، قبروں میں پڑے لوگوں سے کون حساب لے گا۔
اب ملک میں پھر انتخابات کی آمد آمد ہے۔ برسراقتدار طبقہ ‘وقت پر الیکشن ہوں گے’ کے نعرے لگاتا رہا۔ وہ جو سلیکٹڈ کہلواتے تھے انہوں نے ازخود صوبائی اسمبلیوں کو ختم کر کے قبل از وقت انتخابات کرنے کی راہ ہموار کر دی مگر وفاقی حکومت تاحال اقتدار سے چمٹی ہوئی ہے اور ان کی جانب سے اقتدار چھوڑنے کا کوئی عندیہ سامنے نہیں آیا۔ صوبائی کابینہ ابتدائی تین ماہ بعد الیکشن کرانے کی پابند ہے اب دیکھتے ہیں کہ صرف دو صوبوں میں انتخابات کرائے جائیں گے یا پھر قومی اسمبلیوں کے اراکین کا انتخاب بھی ہو گا۔
ملک میں کچھ عجیب غیریقینی صورتحال ہے؛ مہنگائی نے قوم کی کمر توڑ کر رکھ دی، کراچی ڈاک یارڈ پر درآمد شدہ مال سے بھرے 600 کنٹینر کھڑے ہیں، خزانے میں اتنی سکت نہیں کہ اس مال کو واگذار کیا جائے۔
دوسرے صوبوں کا ہمیں کوئی علم نہیں مگر پختونخوا میں عوام کو گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے۔ پٹرول پمپ پر تیل ناپید ہے، لوگوں کے کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گئے ہیں۔ روڈ سنسان ہوتے جا رہے ہیں، ہسپتالوں میں دوائیوں کی قلت ہے اور قوم ایک گومگو کی صورت میں مبتلا ہے۔
وفاق میں حکمران چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ وزیراعظم صاحب قوم کو اعتماد میں لینے کی جرات نہیں کر سکتے۔ ایک سابقہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کل صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ میں نہیں سمجھتا کہ ملک دیوالیہ نہ ہو گا جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد کمی کر دی جائے گی۔
جی! ہمارے صوبے میں پندرہ وزیروں نے حلف اٹھا لیا ہے؛ یہ حضرات کون ہیں اور کن کوائف کے حامل ہیں، قوم کو کچھ معلوم نہیں، وہ اپنے اپنے محکموں کا چارج سنبھال کر کام شروع کر چکے ہیں۔
پہلے یہ دستور تھا کہ نامزد وزراء کے کوائف اخبارات میں باقاعدگی سے چھپ جاتے، اب یہ روایت بھی ختم ہو گئی۔ اخباری اطلاع کے مطابق یہ نگران کابینہ مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھنے والے ارب پتی تاجروں پر مشتمل ہے، ان میں پانچ ارکان جے یو ائی سے سیاسی وابستگی رکھتے ہیں، دو کا عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق ہے، دو ارکان مسلم لیگ ن پارٹی سے وابستہ ہیں، کے ڈبلیو بی اور تحریک اصلاحات سے تعلق رکھنے والے کو بھی ایک ایک کا حصہ دار بنایا گیا ہے۔
ان لوگوں کی سیاسی وابستگیوں کو دیکھ کر ان کی الیکشن میں غیرجانبداری ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے کسی ایک فرد کو بھی وزارت کا اعزاز نہیں بخشا گیا۔ تین ماہ کے عبوری دور میں ان وزراء کا کیا لائحہ عمل ہو گا، اخبار یہ ضرور بتاتا ہے کہ کابینہ میں شامل شخصیات کے ایک دوسرے کے ساتھ کاروباری مفادات وابستہ ہیں۔ واللہ اعلم! ہم تو صرف قوم کی بھلائی چاہتے ہیں اور بس!
دیکھتے ہیں کہ آئندہ الیکشن کیا اس قوم کو مہنگائی سے نجات دینے اور سیاسی غیریقینی صورتحال کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گا۔